نئی دہلی: ’یہاں مٹھی بھر لوگ ہیں‘، یہ جملہ پاس کھڑے ایک کسان کو سخت ناگوار گزرتا ہے۔ درمیانی عمر کا یہ کسان کہتا ہے، مٹھی بھر نمک بھی سبزی کو تلخ کر دیتا ہے۔ ہماری تعداد پر مت جائیے، حوصلوں کی بات کیجئے۔ حکومت کو گھٹنوں پر لاکر ہی دم لیں گے۔ یا تو یہ قانون نہیں۔ یا پھر ہم نہیں!‘‘
دہلی کے یوپی بارڈر پر مغربی اتر پردیش کے کسانوں کی سب سے بڑی تنظیم بھارتیہ کسان یونین کے بینر تلے سینکڑوں افراد جمع ہیں۔ یہ تعداد ہزارں تک بھی پہنچ جاتی ہے، تاہم جمعرات کو دوپہر 2 بجے یہاں 200-300 کسان ہی موجود ہیں۔ سنگھو بارڈر اور ٹیکری بارڈر کے لاکھوں کسانوں کے مقابلہ میں یہ مٹھی بھر ہی ہیں، تاہم ان کسانوں کا حوصلہ کسی بھی طرح سے کم نہیں ہے۔
Published: undefined
بھارتیہ کسان یونین وہی تنظیم ہے جس کا قیام مغربی یوپی کے مقبول کسان قائد چودھری مہندر سنگھ ٹکیت نے کیا تھا۔ یہ وہی ٹکیت تھے جنہوں نے 90 کے عشرے میں لاکھوں کسانوں کے ساتھ دہلی کا محاصرہ کر لیا تھا۔ غازی پور بارڈر پر بابا ٹکیت کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ یہاں موجود لوگ بھوپا کے ’نعیمہ سانحہ‘ میں ان کی جد و جہد کو یاد کر رہے ہیں، سن رہے ہیں۔
ایک کسان نے کہا، ’’ان (مہندر سنگھ ٹکیت) کی ایک آواز پر لاکھوں کسان آ جاتے تھے۔ اب بھی آ جائیں گے۔ کسان ابھی انتہائی مصروف ہیں، اناج بو رہے ہیں، گنا مل میں ڈال رہے ہیں۔ تھوڑا صبر کرو، دہلی میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں رہے گی۔‘‘
Published: undefined
بھارتیہ کسان یونین کی کمان اب چودھری مہندر سنگھ ٹکیت کے بڑے بیٹے نریش ٹکیت کے ہاتھ میں ہے لیکن نریش کھیتی کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یونین کا چہرہ ان کے چھوٹے بھائی اور قومی ترجمان راکیش ٹکیت ہیں۔ راکیش ٹکیت سیاسی طور پر بیدار ہیں اور وہ وزیر داخلہ امت شاہ سے بات چیت کرنے کے لئے گئے کسانوں کے وفد میں بھی شامل تھے۔ دھرنے کا انتظام گورو کے ہاتھ میں ہے، جوکہ نریش ٹکیت کے بیٹے ہیں اور 15 دنوں سے یہاں موجود ہیں۔
یہاں موجود اشوک کمار نے کہا، ’’ذرا سا انتظار کیجئے، کسان اس بار آر پار کی جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں۔‘‘ اس تحریک کو پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی تحریک بتایا جا رہا ہے، اس کے باوجود گزشتہ دنوں سے راکیش ٹکیت زیر بحث ہیں۔ مظفرنگر کے قصبہ سسولی کے رہنے والے ’ٹکیت‘ مظفرنگر فسادات کے بعد سے کمزور ہو گئے تھے، کیونکہ مسلمان ان سے دور چلے گئے تھے لیکن اب مسلمان دوبارہ سے ان سے جڑ گئے ہیں۔
اشوک نے کہا، ’’بھارت بند والے دن سسولی میں ایک پتہ بھی نہیں ہلا، اس سے معلوم چلتا ہے کہ بند کتنا کامیاب رہا۔ تھوڑا وقت گزرنے دیں، دہلی کو سسولی بنا دیا جائے گا۔’‘
Published: undefined
اشوک کمار کی بات میں اس لئے دم لگتا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں ’قومی آواز‘ سے خصوصی گفتگو کے دوان راکیش ٹکیت نے دعویٰ کیا تھا کہ دھان کی فصل کی فروخت کے بعد دہلی میں کسانوں کا انقلاب آنے والا ہے اور ان کا دعویٰ اس وقت درست ثابہت ہوا جب پنجاب سے کسانوں کا ایک سیلاب امنڈ پڑا۔ بھارتیہ کسان یونین کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ یہ لمبی لڑائی ہے اور اسی حساب سے حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ بجنور کے ضلع صدر دگمبر سنگھ یونین کا موقف ٹی وی پر رکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے لیڈر راکیش ٹکیت ایم ایس پی پر قانون بنانے کا مطالبہ پہلے دن سے کر رہے ہیں۔ اب ان تیوں قوانین کی منسوخی کے کم پر بات نہیں بنے گی۔ اب حکومت بضد ہے تو ہم بھی لڑائی میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
یونین کے ایک اور حکمت عملی ساز اور ریاستی صدر راج دیپ سنگھ جادون کہتے ہیں کہ اس بار 26 جنوری کی پریڈ میں کسانوں کے ٹریکٹر بھی شامل ہوں گے۔ حکومت کی اکڑ کو مروڑنے کا کام کسان کرے گا۔ اب یہ لڑائی کسانوں کے وجود کی لڑائی بن گئی ہے۔
Published: undefined
راکیش ٹکیت کہتے ہیں، ’’مرکزی حکومت نے کسانوں کے مفاد میں کوئی کام نہیں کیا۔ اس حکومت کی 6 سال کی مدت کار میں آج کسان آدھے داموں پر فصل بیچنے پر مجبور ہیں، لہذا اب کسان اپنی تحریک تیز کریں گے اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا، ’’کسان اب اپنے مطالبات پورے کرائے بغیر دہلی سے نہیں جائیں گے۔ کسان پہلے ہی مرکز کی تجاویز کو نامنظور کر چکے ہیں، پرالی پر بھی کسان کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ 12 دسمبر کو تمام سڑکوں کو ٹول فری کر دیا جائے گا اور 14 دسمبر کو ہر ضلع میں دھرنا دے کر انتظامیہ کو مکتوب پیش کیا جائے گا۔ کسان بی جے پی کے لیڈران کا گھیراؤ بھی کریں گے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز