قومی خبریں

کورونا بحران کے دوران کسان پریشانیوں سے دو چار

زراعت کے ماہر آموکانت نے بتایا کہ گندم فصل کی کٹائی عموماً مارچ کے آخری ہفتے سے شروع ہو جاتی ہے لیکن اس بار کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے مزدوروں نہیں مل رہے ہیں

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

لکھنؤ: کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اٹھایا گیا لاک ڈاؤن کا اقدام کسانوں کے لئے سخت پریشانیوں کا باعث ثابت ہو رہا ہے۔ کھیتوں میں کھڑی گنے کی فصل کی کٹائی، چھلائی، لدائی اور اسے شوگر مل تک پہنچانے کے مسئلہ سے جوجھ رہے کسانوں کے سامنے اب ایک نیا بحران کھڑا ہو گیا ہے۔ گندم کی فصل کچھ ہی دنوں میں کٹائی کے لئے تیار ہوجائے گی لیکن کسان مزدور ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔

Published: undefined

باہر کمانے کے لئے گئے ہوئے غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے مزدور لاک ڈاؤن کے سبب اپنے گھروں کو نہیں لوٹ پائے ہیں اور ان کو مزدوری کے عوض میں جو اناج مل جایا کرتا ہے اب وہ بھی کھو جانے کا خدشہ ہے۔ اگر حالات میں تبدیلی نہیں آئی تو پہلے سے ہی معاشی بحران کے شکار کسانوں کی حالت مزید خراب ہو جائے گی جبکہ غذائی اجناس کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ کسانوں کی لاکھوں ہیکٹیئر گندم کی فصل تیار ہے اور موسم جو لگاتار کروٹ لے رہا ہے وہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

Published: undefined

زراعت کے ماہر آموکانت نے بتایا کہ گندم کی فصل کی کٹائی عموماً مارچ کے آخری ہفتے سے شروع ہو جاتی ہے لیکن اس بار کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے مزدوروں نہیں مل رہے ہیں، جس کے سبب کسانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن مشینوں کو باہر سے کٹائی کے لئے لایا جانا ہے انہیں بھی روکا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے مشینیں دیہات تک نہیں پہنچ پا رہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں کے وہ مزدور جو ہولی کے بعد صرف کٹائی کر کے ہی گزر بسر کرتے ہیں ، ان پر سخت پہرا لگا ہوا ہے۔ اگر ایک ہفتہ کے اندر فصل کی کٹائی نہ کی گئی تو کسانوں کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ادھر گنے کے کاشتکاروں کو بھی تمام پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Published: undefined

بھارتیہ کسان یونین کے ریاستی نائب صدر ہرنام ورما نے خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کو بتایا کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مویشی پروروں کے پاس اپنے جانوروں کے لئے چارہ موجود نہیں ہے۔ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے باہر نہیں جا پا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس آلو کھودنے والے کسانوں کو بھی پریشان کر رہی ہے۔ یہ وقت مسور اور سرسوں کی کٹائی کا ہے، ایسی صورتحال میں اگر مشینیں اور مزدور کسانوں تک نہیں پہنچ پائے تو یقینا انہیں معاشی بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کی وجہ سے غذائی اجناس کا بحران پیدا ہوگا۔ حکومت کا پیکیج کسانوں تک کب پہنچے گا کسی کو نہیں معلوم۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کاشتکاروں کو صفائی ستھرائی کے ساتھ اپنے کام کو کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

Published: undefined

پلاننگ کمیشن کے سابق ممبر اور ماہر زراعت پروفیسر ڈاکٹر سدھیر پنوار نے کہا کہ اس بار بارش اور ژالہ باری کے سبب 20 سے 30 فیصد کاشت برباد ہوگئی ہے۔ اس کے معاوضہ کا عمل جاری تھا، تبھی لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا ۔ مارچ کے آخر میں گنے اور آلو کی فصل کے آنے کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں کسانوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ حکومت نے اس میں کچھ نرمی دی ہے۔

Published: undefined

دوسری طرف حکومت نے بیج، کھاد اور جراثیم کش ادویات کی دکانیں کھولنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس سپرنٹنڈنٹس کو جاری کردہ ہدایت میں کہا ہے کہ زرعی کاموں اور کھاد، بیج کی فراہمی کرنے والوں کی گاڑیوں کی آمد و رفت کو روکا نہیں جانا چاہیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined