مرکزی حکومت اور کسان لیڈروں کے درمیان 20 جنوری کو ہوئی دسویں دور کی بات چیت حالانکہ بے نتیجہ ختم ہو گئی ہے، لیکن اس میٹنگ میں مرکزی وزراء نے کسان یونینوں کے سامنے ایک ایسی تجویز رکھی ہے جس پر 21 جنوری کو سبھی کسان لیڈران میٹنگ کر کے فیصلہ لیں گے۔ متنازعہ زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کر رہےکسانوں نے میٹنگ میں حکومت سے کہا کہ وہ قوانین میں ترمیم نہیں چاہتے، اس لیے تینوں قوانین واپس لے لیے جائیں۔ لیکن حکومت نے اس سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ عارضی طور پر ایک ڈیڑھ سال کے لیے قوانین پر روک لگا سکتے ہیں تاکہ کمیٹی اچھی طرح جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کر سکے۔ ذرائع کے مطابق اس تجویز کو کچھ کسان لیڈروں نے مسترد کر دیا، جب کہ کچھ لیڈروں نے کہا کہ اس پر سبھی کسان یونین آپس میں میٹنگ کر کے فیصلہ لیں گے۔ بعد ازاں آئندہ 22 جنوری کو اگلی میٹنگ طے کی گئی۔
Published: undefined
کسان لیڈر درشن پال نے میٹنگ میں ہوئی بات چیت کی تفصیل پیش کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ’’میٹنگ میں تینوں قوانین اور ایم ایس پی پر حکومت کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ حکومت نے کہا کہ ہم تینوں قوانین کا کا ایفی ڈیوٹ بنا کر سپریم کورٹ کو دیں گے اور ہم ایک ڈیڑھ سال کے لیے اس پر روک لگا دیں گے۔ ایک کمیٹی بنے گی جو تینوں قوانین اور ایم ایس پی کا مستقبل طے کرے گی۔ ہم نے کہا کہ ہم اس پر غور کریں گے۔‘‘
Published: undefined
کسان لیڈر حنان ملا نے بھی میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’حکومت کی تجویز پر ہم غور کریں گے اور اس کے بعد مرکزی وزراء کو جواب دیں گے۔‘‘ کسان لیڈر شیو کمار ککّا جی نے بھی کسان یونینوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے بعد ہی کوئی جواب دینے کی بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ (حکومت کی نئی تجویز) غور کرنے والی بات ہے۔ ہم نے کمیٹی کو منع کیا ہے کیونکہ اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ اب درمیان کا جو راستہ نکلا ہے، کل ہم اس پر بات چیت کریں گے۔‘‘
Published: undefined
میٹنگ کے بعد مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کا بیان بھی میڈیا میں سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج ہماری کوشش تھی کہ کوئی فیصلہ ہو جائے۔ کسان یونین قانون واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے اور حکومت کھلے من سے قانون کے ضابطوں کے مطابق غور کرنے اور ترمیم کرنے کے لیے تیار تھی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے کچھ وقت کے لیے زرعی اصلاح قوانین کو ملتوی کیا ہے۔ حکومت ایک سے ڈیڑھ سال تک بھی قانون کے عمل پر روک لگانے کے لیے تیار ہے۔ اس دوران کسان یونین اور حکومت بات کریں اور حل تلاش کریں۔‘‘ ایک دیگر بیان میں نریندر تومر نے کہا ہے کہ ’’جس دن کسانوں کی تحریک ختم ہوگی، وہ ہندوستانی جمہوریت کی جیت کا دن ہوگا۔‘‘
Published: undefined
اس بیان سے ظاہر ہے کہ مرکزی وزیر زراعت کسان تحریک کو جلد ختم کرنے کو لے کر پرامید ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے تو 21 جنوری کو ہونے والی کسان یونین کی میٹنگ کا انتظار کرنا ہوگا کہ وہ حکومت کی تجویز ماننے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اور پھر اس کے بعد 22 جنوری کو کسان لیڈروں کے ساتھ مودی حکومت کے نمائندوں کی ہونے والی میٹنگ پر بھی سب کی نظر رہے گی۔
Published: undefined
اس درمیان کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا ایک ٹوئٹ آیا ہے جس میں انھوں نے مرکز کی مودی حکومت کو ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنے کی جگہ فوری طور پر تینوں زرعی قوانین کو رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’مودی جی، آپ اور آپ کے وزیر ورغلائیں مت۔ تینوں سیاہ قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے ملتوی کرنے سے کیا ہوگا؟ ساری خامیاں جوں کی توں رہ جائیں گی۔ آپ ان تینوں قوانین کو ختم کیوں نہیں کرتے؟ یہ کیسی انا ہے؟‘‘ ساتھ ہی رندیپ سرجے والا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جدوجہد کر رہے سبھی اَن داتاؤں کے جذبے کو سلام۔ جیتے گا کسان۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز