آہ! سید ظفر حسن نقوی بھی بلا آخرعالم فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ یہ لکھنا ہی سوہان روح ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی وفات کا یقین نہیں آتا لیکن موت ایک تلخ وابدی حقیقت ہے جو آیا ہے اس کو جانا ہے۔ ظفرنقوی نے ایک بھرپور زندگی گزاری، ان کی عمرتقریباً 60 سال تھی۔ وہ چست اور تندرست تھے کہ اچانک عارضہ قلب نے انہیں اتنا بھی موقع نہیں دیا کہ اپنے شناساؤں سے دعا کی درخواست کرتے۔ ظفرنقوی کے انتقال سے ملک بالخصوص دہلی میں مزاحمتی صحافت کے ایک باب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ آپ کئی ممتاز اردو اخبارات کے شعبۂ ادارت کے سربراہ رہے۔ مرحوم نقوی صاحب اردو، ہندی اورانگریزی تینوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ مرحوم ایک مستند اور اعلیٰ درجے کے صحافی، کالم نگار، ممتاز افسانہ نگار اور مضمون نگار تھے، جنھوں نے مختلف اردو اخبارات میں طبع آزمائی کی اور ہر جگہ اپنی یادگار چھاپ چھوڑی۔ نقوی صاحب ایک سچے ترقی پسند اورپختہ فکر ادیب تھے۔
ظفرنقوی صاحب نے کٔی اردو اخبارات میں اپنے قلم کا لوہا منوانے کے بعد 2006 میں روزنامہ ’صحافت‘ دہلی کے شعبۂ ادارت کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور2011 کو سرگرم صحافت سے دستبردار ہوگئے۔ اس وقت ان کے ہم عصروں میں آفتاب صحافت ظفرآغا، محمد ادیب، نفیس احمد، سید خرم رضا، شیخ فصیح الدین، علی حیدر رضوی صاحبان جیسے شامل تھے۔ انہیں شخصیات کی نگرانی میں حقیرکو بھی صحافت کے رموز سیکھنے اور سمجھنے کا نایاب موقع ملا۔ مرحوم کی تعلیم کا ہی نتیجہ ہے کہ آج حقیر خود کو ادنی صحافی کہنے کی جسارت کر رہا ہے- مرحوم نقوی صاحب نے ’صحافت‘ کے پلیٹ فارم سے قومی وملی مسائل کے حل اور حکومت کی متنازعہ پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی اورتنقید برائے اصلاح کے پہلو کو اپنائے رکھا۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کیا۔ آپ دنیائے صحافت کی نڈر و بیباک شخصیت تھے جنہوں نے حالات کی نا مساعدات اور دھونس، دھاندلی و دھمکیوں سے بے پروا ہو کر اپنے مشن و مقصد کو جاری رکھا۔ آپ صحافت کا ایک مکمل عہد تھے، ایک ایساعہد جو روشن، درخشاں اور ناقابل فراموش ہے۔
ظفرنقوی صاحب کی وفات سے دہلی اور اترپردیش کی صحافت حقیقی معنوں میں یتیم ہو گئی ہے۔ مرحوم نے کسی سے مرعوب ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔ آپ نے تاعمر اپنا راستہ خود بنایا اور رہتی دنیا تک کے لئے ایک مثال قائم کر گئے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن، تحریک اور تربیت گاہ تھے۔ ایک ایسی تربیت گاہ جس نے صحافتی اقدار کی روح کو کبھی متاثرنہیں ہونے دیا۔ ظفرنقوی کا نام صحافت کے افق پر ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ آپ پیشہ وارانہ طور پر انتہائی مضبوط اورمشکل پسند انسان تھے، اس لئے صحافتی دنیا میں نت نئے تجربے کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ آپ مختلف ممتاز و معتب اداروں کے وسیع مشاہدے اور تجربے سے مالا مال تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا طرز تحریر نہ صرف عوامی بنایا بلکہ اسے تحریک بنا کرسرگرم عمل ہو گئے۔ بحیثیت پیشہ ورصحافی ان کی صلاحیتوں کے قائل ان کے مخالفین بھی رہے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ دیانتداری اوربیباکی کے فلسفے کو بنیاد بنا کر نہ صرف خود کام کیا بلکہ اپنے ماتحتوں کو بھی تربیت دی، یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کے تمام اہم اداروں میں ان کے شاگردوں کا راج ہے۔ یہی نہیں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کا صحافت سے دور دورکوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی ان کی قربت اور دلچسپی سے موجودہ دور کے نامور صحافی شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی رحلت سے صحافت اپنے رہنما بالخصوص ایک بہترین استاد سے محروم ہوگئی۔
مرحوم کی وفات صحافتی دنیا کا ایک بڑا نقصان ہے۔ مرحوم نے صحافتی زندگی میں ہمیں جو کچھ دیا اسے آگے بڑھانا چا ہیے۔ وہ ہردل عزیزشخصیت کے مالک تھے۔ یہ ایک بڑے انسان کی اعلیٰ ترین خوبی ہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ صحافت اگراصولوں پرکی جائے تو صحافی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ بے شک انسان اس دار فانی سے کوچ کرنے کے بعد جتنا مقام لوگوں کی نظروں میں پاتا ہے وہ سب وہ جیتے جی کبھی نہیں پا سکتا لیکن دنیا میں کچھ انسان ایسے آتے ہیں جو دنیا میں بھی نام کما کر چلے جاتے ہیں اور ممکن ہے کہ آخرت میں بھی اللہ انہیں اچھے مقام سے نوازتا ہوگا۔ اسی طرح ظفرنقوی بھی ریاست اترپردیش کے بریلی کا وہ نام ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت دہلی میں گزارا اورجو اپنی خداداد صلاحیتوں اور کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ روشن رہے۔ ظفرنقوی صحافتی دنیا کا وہ روشن ستارہ تھا جو کافی مدت تک دنیا ئے صحافت پر چمکتا رہا مگرحالات زمانہ نے اسے گوشہ نشینی اختیار کرنے پرمجبورکردیا۔ جسے صحافتی دنیا سے منسلک حضرات کبھی بھی بھول نہیں پائیں گے۔
Published: undefined
ظفرنقوی صحافتی دنیا کا ایک مقبول نام بن کر رہ گئے ہیں۔ صحافت کی وساطت سے ظفرنقوی نے شاگرد ہائے صحافت کے لئے وہ کارہائے نما یاں انجام دیئے جن کا صلہ انہیں بس اللہ ہی دے سکتا ہے۔ دنیا میں انھوں نے جس قدرعوامی مسائل کو ترجیح بنیادوں پراجاگر کیا وہ نا قابل فراموش ہے۔ مرحوم نے صحافتی دنیا میں جوجھنڈے گاڑے اس کے عوض انہیں وہ اجرت نہیں مل پائی جس کے وہ حق دار تھے۔ ہرانسان کے دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ گو کہ انسان ایک بہت قیمتی شٔے ہے جس کے جیتے جی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جیتے جی انسان کو وہ عزت و اکرام نہیں دیا جاتا جو اس کے جانے کے بعد دیا جاتا ہے۔ ناچیز کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جیتے جی انسان کے اصل مقام سے آگاہ ہونے کی کوشش کی جائے۔ ان تمام باتوں کا اظہاراس لئے کرنا پڑا کہ ظفرنقوی بھی ایک ایسے انسان تھے جس کے زندہ ہوتے ہوئے اس کے اصل مقام سے آگاہ ہونے میں ہم لوگ مکمل طور سے ناکام رہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی تو بیجا نہ ہوگا۔ حق گوئی، ایما نداری، دیانتداری ان کا خاصہ تھا۔ آج اگرظفرنقوی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں تو وہ ان کی حق پرستی، بیباکی اور سچائی کا نتیجہ ہے۔ مرحوم کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں اردو، ہندی اورانگریزی کے ساتھ کئی دیگرزبانوں پرعبورحاصل تھا۔
قارئین حضرات کو بتاتا چلوں کہ راقم کی مرحوم کے ساتھ وابستگی صرف چند سالوں کی ہے۔ اس دوران انہوں نے مجھے ایک شفیق استاد کی طرح صحافت کے رموز کو سمجھنے کی تعلیم دی۔ مرحوم کے بارے میں معلومات حاصل کر نے کے بعد مجھے لگا کہ انہیں جیتے جی زیادہ واسطہ باد صبا سے کم اور مصیبتوں سے زیادہ پڑا لیکن مرد آہن اورگوہر بے بہا تمام حالات کا مقابلہ حسن و خوبی اورجوانمردی سے کرتے ہوئے زندگی کی تقریباً 60 بہاریں دیکھ کراس خاکی دنیا کواپنے وجود سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا اور اس دنیا کی طرف چلا گیا جہاں دنیا کے جھمیلے اور رات دن کی تھکا دینے والی مصروفیات، حاکم اور محکوم کا فرق، اپنے معاصر کی نکتہ چینی،عزیز واقارب اور بھائی بہنوں کی ناز آفریں سب کچھ ختم کر کے رحمت اورمغفرت والے کے دربار میں جہاں صرف ایک حاکم کی حاکمیت ہوگی جہاں ہر معاملہ عدل و انصاف کے ساتھ ہو گا، اب وہاں ظفر نقوی آسودہ خاک ہو چکے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے…آمین!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined