ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلی عہدیدار کی جانب سے بی جے پی لیڈران کے مسلم مخالف نفرت آمیز پیغامات کو ہٹانے سے انکار کر دینے کا انکشاف ہوا ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق معاشی خسارے کے خوف سے فیس بک حکام نے بی جے پی لیڈران اور انتہا پسند ہندوؤں کے پیغامات سوشل میڈیا ویب سائٹس سے ہٹانے سے انکار کر دیا۔
Published: 16 Aug 2020, 11:29 AM IST
ان لوگوں اور گروپوں کی جانب سے فیس بک پر پوسٹ کئے گئے مواد کو اندورنی طور پر پوری طرح تشدد کو فروغ دینے والا مانا گیا، اس کے باوجود ان کا دفاع کیا جاتا رہا۔ امریکی اخبار کا فیس بک ملازمین کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کی پبلک پالیسی کی اعلیٰ عہدیدار انکھی داس نے حکمراں جماعت بی جے پی کے سیاستدان ٹی راجا سنگھ اور دیگر ہندو رہنماؤں کے مسلمان مخالف اشتعال انگیز پیغامات کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
Published: 16 Aug 2020, 11:29 AM IST
انکھی داس کا خیال تھا کہ کہ بی جے پی سیاستدانوں کے خلاف کارروائی سے حکمراں جماعت سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور ہندوستان میں کمپنی کا کاروبار متاثر ہو گا۔ ٹی راجا تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد رکن اسمبلی ہیں اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے کے لئے جانا جاتا ہے۔
Published: 16 Aug 2020, 11:29 AM IST
امریکی اخبار کی رپورٹ پر ترجمان فیس بک کا کہنا ہے کہ ان افراد کے اکاؤنٹ بند کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق معاملے کی تحقیقات کے دوران فیس بک نے ان افراد کے متعدد نفرت انگیز پیغامات کو سوشل میڈیا سے ہٹا دیا ہے تاہم انڈین سیاستدان اور دیگر افراد کے اکاؤنٹس اب تک سوشل میڈیا ویب سائٹس پر موجود ہیں۔
Published: 16 Aug 2020, 11:29 AM IST
رپورت میں کہا گیا، ’’داس، جن کے کاموں میں فیس بک کی طرف سے حکومت ہند کے ساتھ لابینگ کرنا شامل ہے، نے اسٹاف سے کہا کہ مودی کی پارٹ کے رہنماؤں کی طرف سے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں سزا دینے سے ہندوستان میں کمپنی کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’’فیس بک کے موجودہ اور سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ نفرت پھیلانے والے لیڈارن کے معاملہ میں انکھی داس کی مداخلت کرنا مودی کی پارٹی بی جے پی اور ہندو قوم پرستوں کے تئیں فیس بک کی جانبداری کے وسیع تر طریقہ کار کا حصہ ہے۔‘‘
Published: 16 Aug 2020, 11:29 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Aug 2020, 11:29 AM IST
تصویر: پریس ریلیز