نیا سال مدھیہ پردیش کے ضلع اندور واقع چندن کھیڑی گاؤں میں رہنے والے اقلیتی طبقہ کے لیے اچھا ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ ابھی گزشتہ بدھ کے روز ہی اقلیتی طبقہ کے تقریباً 15 گھروں کو غیر قانونی قبضہ بتاتے ہوئے منہدم کیا گیا تھا، اور اب تازہ ترین خبروں کے مطابق مزید 13 گھروں کو سڑک چوڑی کرنے کے نام پر جزوی طور پر منہدم کر دیا گیا ہے۔ مقامی لوگ الزام عائد کر رہے ہیں کہ انتظامیہ یہ سب مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے کر رہی ہے کیونکہ 29 دسمبر کو ہندو تنظیم کی ریلی پر ہوئے پتھراؤ کا وہ غصہ نکال رہی ہے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ جس چندن کھیڑی میں رام مندر کا چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ہندو تنظیم نے ریلی نکالی تھی، وہ اقلیتوں کی آبادی والا علاقہ ہے۔ کچھ خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ گاؤں میں ایک مسجد کے سامنے ہندو تنظیم کے کارکنان پوجا کر رہے تھے جس سے دوسرے فرقہ کے لوگ ناراض ہو گئے۔ پھر دونوں فرقوں کے درمیان تنازعہ شروع ہو گیا جس نے پتھراؤ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد پولس نے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 درجن افراد کو گرفتار کر لیا اور کئی مکانوں کو بھی منہدم کیا گیا۔ اب اسی علاقے میں سڑک چوڑی کرنے کے نام پر کئی گھروں کو جزوی طور پر منہدم کیا گیا ہے جس سے خوف و دہشت کا عالم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ بغیر نوٹس کے ان کے گھروں کو توڑا گیا۔
Published: undefined
جن گھروں کو سڑک چوڑی کرنے کے نام پر توڑا گیا ہے ان میں مقامی پنچایت رکن محمد رفیق کا گھر بھی شامل ہے۔ رفیق کی بیوی پروین نے انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ گھر توڑے جانے سے صرف ایک دن پہلے ضلع انتظامیہ کے کچھ افسران آئے اور انھیں گھر خالی کرنے کی ہدایت دی۔ پروین نے مزید بتایا کہ ’’میں نے پولس سے گزارش کی کہ پہلے ہی میرے شوہر کو پتھربازی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے، میں ایسے میں اپنے ٹوٹے گھر میں کیسے محفوظ رہ سکتی ہوں۔ لیکن افسروں نے ان کی باتوں کو نظرانداز کر دیا۔‘‘
Published: undefined
مکان توڑے جانے کے تعلق سے مقامی تحصیل کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ پرتل سنہا نے بتایا کہ شروع میں صرف سڑک تعمیر کا ہی منصوبہ تھا، لیکن پرتشدد تصادم کے واقعہ کے بعد اس سڑک کو مزید چوڑی کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا اس لیے یہ کارروائی ہوئی۔ ساتھ ہی پرتل سنہا نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم نے علاقے کے باشندوں کو اپنا سامان نکالنے کے لیے مناسب وقت دیا تھا اور اس میں کسی کا نقصان بھی نہیں ہوا۔‘‘
Published: undefined
چندن کھیڑی میں لگاتار اقلیتی طبقہ کے مکانوں کو توڑے جانے پر کئی لوگ اب سوال کھڑے کرنے لگے ہیں۔ کچھ لوگ اسے مدھیہ پردیش کی شیوراج حکومت کا ’مسلم دشمن‘ چہرہ بھی ٹھہرا رہے ہیں۔ مشہور و معروف صحافی شاہد صدیقی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شیوراج چوہان اقلیتی طبقہ کے تئیں نفرت انگیز مہم میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس تعلق سے انھوں نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’سڑک چوڑی کرنے کے نام پر مسلمانوں کے 13 گھروں کو بغیر نوٹس دیئے منہدم کر دیا گیا۔ پہلے وی ایچ پی نے حملہ کیا، پھر پولس نے ظلم کیا اور اب بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں ’ایڈمنسٹریٹو دہشت گردی‘ کی ایک نئی شکل ابھر رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ چاندن کھیڑی گاؤں اندور شہر سے تقریباً 40 کلو میٹر دور ہے۔ اس گاؤں میں کم و بیش 400 مسلم اور قریب 15 ہندو فیملی رہتی ہیں۔ ہندو تنظیم کے کارکنان پر ہوئے پتھراؤ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور پولس فورس بھی تعینات ہے۔ 29 دسمبر کو ہوئے پتھراؤ واقعہ کے بعد مقامی تھانہ ٹی آئی رمیش چند بھاسکر کو لاپروائی کے الزام میں معطل بھی کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی سانویر ایس ڈی پی او پنکج دیکشت کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز