ملک کو دہلا دینے والے بلند شہر تشدد معاملہ میں ایسا انکشاف ہونے والاہے جو سب کو حیران کر دے گا۔ واقعہ کے تعلق سے پولس کی پوری کہانی بدلنے والی ہے۔ نئے پولس کپتان پربھاکر چودھری کی قیادت میں بلند شہر پولس کی جانچ بے حد اہم سمت میں بڑھ چکی ہے۔ پولس نے کچھ گرفتاری کی ہے جس سے مبینہ گئوکشی کے متعلق پیدا شدہ راز منکشف ہو گیا ہے۔
مقامی لوگوں میں اس انکشاف کے تئیں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں دونوں ہی اس سے مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی پولس نے کچھ بتایا نہیں ہے لیکن تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں دیر رات ہوئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بجرنگ دل کے کنوینر یوگیش راج کے ذریعہ لکھائی گئی ایف آئی آر پولس کی اس جانچ میں بے بنیاد پائی گئی ہے۔ اس میں نامزد کیے گئے لوگوں کے بے قصور ہونے کی لگاتار باتیں ہو رہی ہیں اور اب یہ تقریباً صاف ہو گیا ہے کہ پولس ان لوگوں کی آزادی کے لیے عدالت میں ہر ممکن کوشش کرے گی۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ 3 دسمبر کو بلند شہر میں گئو کشی کے معاملے پر ہندو تنظیموں نے زبردست ہنگامہ کیا تھا جس میں سیانا کوتوال سبودھ کمار رکی شہادت ہو گئی تھی۔ زبردست آگ زنی اور تشدد کے بعد ملک بھر میں شورش پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل پر لگاتار سوال اٹھ رہے تھے۔ اس ہنگامہ کے دوران ایک نوجوان سُمت کی موت بھی ہو گئی تھی۔ ہنگامہ کی شروعات والے دن علی الصبح بجرنگ دل کارکنان نے مہاب گاؤں کے جنگلوں میں ملے باقیات کو لے کر جام لگا دیا تھا۔ بتایا جا رہا تھا کہ یہ باقیات گائے کے ہیں، حالانکہ کچھ افسر دبی زبان میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ یہ جانچ کے بعد پتہ چل پائے گا کہ باقیات کس جانور کے ہیں۔
ماحول بدل چکا ہے اور پولس کی جانچ میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ ایک طرف جہاں پولس نے ہندو تنظیموں کے دو درجن سے زیادہ نوجوانوں کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کر ان کے پوسٹر چسپاں کیے ہیں تو دوسری طرف انھوں نے جنگل میں ملے باقیات سے متعلق سیانا قصبہ سے تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ مقامی پولس ذرائع کے مطابق سیانا کے آس پاس کے جنگلوں میں بڑے پیمانے پر جنگلی نیل گھوڑے کا شکار کیا جا رہا تھا۔ یہ شکار سیانا کے آس پاس کے پانچ چھ کلو میٹر کے علاقے میں عروج پر تھا۔ گائے جیسے نظر آنے والے اس جانور کو مقامی لوگ نیل گائے بھی کہتے ہیں۔ مقامی لوگ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہنگامہ والے دن ملے باقیات نیل گائے کے ہو سکتے ہیں۔ نئے پولس کپتان پربھاکر چودھری نے اس دوران جنگلوں میں 3 کلو میٹر تک کامبنگ کی اور اس کے بعد دیگر مقامات پر بھی ایسے ہی باقیات پائے گئے۔ یہ وہی جانور ہے جو کسانوں کی فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نیل گائے کے ان باقیات کو ٹریکٹر میں بھر کر جام لگایا جا رہا تھا۔ علاقے میں ہو رہے اس شکار کی جانکاری زیادہ تر لوگوں کو ہے اور کچھ کسان بھی ایسے مقامی شکاریوں کی مدد لیتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ بجرنگ دل کے کارکنان بھی یہ بات جانتے تھے اور اجتماع کے وقت وہ خود جنگلوں میں باقیات تلاش کرنے گئے جس سے کہانی کا رخ موڑا جا سکے۔ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ ان کی منشا میں رخنہ بن گئے جس کے بعد ان کا قتل ہو گیا۔ حالانکہ اب پولس اعتراف کر رہی ہے کہ اس ہنگامہ کی جڑ میں یہ شکاری ہیں۔ اگر نیل گھوڑے کے باقیات نہ ملتے تو شاید یہ ہنگامہ نہ ہوتا اور انسپکٹر بھی شہید نہ ہوتے۔ ویسے ہنگامہ یہ بھی ہے کہ اس شکار کی جانکاری مقامی پولس کو کیوں نہیں تھی۔ اعلیٰ پولس ذرائع کے مطابق ایسے تین شکاریوں سے پوچھ تاچھ چل رہی ہے جنھوں نے نیل گھوڑے کا شکار کرنا قبول کیا ہے اور ایک بندوق بھی برآمد کی گئی ہے۔
غورطلب ہے کہ بجرنگ دل کنوینر یوگیش راج نے واقعہ والے دن نیا بانس باشندہ 7 لوگوں کو نامزد کرتے ہوئے ایف آئی آر لکھوائی تھی جس میں دو نابالغ اور 3 ایسے لوگ تھے جو دس سال پہلے گاؤں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان میں سے دو نے اپنے اجتماع میں ہونے کے ثبوت بھی دیے تھے۔ ان میں سے ایک شرف الدین نامی شخص نے اس وقت میڈیا کے سامنے اپنی بے گناہی کا رونا رویا تھا۔
یوگیش راج کی لکھی ہوئی ایف آئی آر میں یوگیش نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے صدف چودھری، شرافت، پرویز شرف الدین اور اس کے ساتھیوں کو گائے کاٹتے ہوئے دیکھا۔ اب یہ کہانی جھوٹی پائی گئی ہے اور پولس شرف الدین کی آزادی کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ چاروں ملزم فی الحال جیل میں ہیں۔
Published: 17 Dec 2018, 8:03 PM IST
امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ پولس جلد ہی اس پورے معاملے کو میڈیا کے سامنے لائے گی اور اس میں کچھ مزید گرفتاری کے لیے کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ پولس ذرائع کی بات پر یقین کریں تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔ جانچ انتہائی اہم سمت میں ہے۔ پولس آس پاس کے گاؤں میں کارروائی کر رہی ہے اور اب تک پورے معاملے میں کل 17 گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ یوگیش راج فی الحال گرفتار نہیں ہوا ہے جب کہ کئی ملزم ٹی وی پر بیان بازی کر رہے ہیں۔ 3 دسمبر کو ہوئے ہنگامے کے بعد میرٹھ کے آئی جی رام کمار نے کہا تھا کہ ہمارے لیے بڑا سوال یہ ہے کہ گائے کو کس نے کاٹا! پولس ذرائع کے مطابق اس سوال کا جواب مل گیا ہے۔
اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ انسپکٹر کو کس نے مارا؟ کون جنگلوں میں ملے نیل گائے کے باقیات کا فائدہ اٹھا کر ہنگامہ کرانا چاہتا تھا؟ اس کے پیچھے کی سازش اور راز اب بھی برقرار ہے۔ فی الحال پولس کی نظریں شکاریوں پر ہے۔ سیانا کے مقامی لوگ اب اس پر اپنا بیان نہیں دیتے لیکن نئی سمت میں بڑھی جانچ سے وہ متفق نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کاش پولس اتنی ہی تیزی انسپکٹر کے قاتلوں تک پہنچنے میں بھی دکھائے!
سیانا کے ایک بزرگ اس پورے معاملے میں کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہاں سالوں سے نیل گایوں کا شکار ہو رہا ہو، کسان اپنی فصلوں کو بربادی سے بچانے کے لیے کرنٹ بھی لگا دیتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باقیات بھی انہی کے ہوں مگر اجتماع کے وقت جب لاکھوں لوگ اکٹھا تھے تو ان کو ٹریکٹر میں رکھ کر جام لگا کر ہنگامہ کرنے کا مطلب تو فساد کرانا ہی ہو سکتا ہے۔ امید ہے پولس اس سمت میں ایمانداری سے جانچ کرے گی۔
Published: 17 Dec 2018, 8:03 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Dec 2018, 8:03 PM IST