فلم ’رن‘ سے لے کر ’بچن پانڈے‘ تک کا سفر کیسا رہا؟
یہ سفر چیلنجز اور مشکلات سے بھرا رہا، اور جب چیلنجز اور مشکل بھرے راستے پر چلتے ہیں تو لطف بھی زیادہ آتا ہے اور تجربے بھی ہوتے ہیں۔ انسان زندگی کو مزید بہتر طریقے سے سمجھ پاتا ہے۔ مجھے کسی طرح کا کوئی افسوس نہیں ہے، غصہ نہیں ہے، مجھے شکر کا احساس ہے۔
آپ بہار سے ہیں، آپ نے کبھی بھوجپوری فلموں کے تئیں کشش محسوس نہیں کی؟ وہں کام نہیں کرنا چاہا؟
بھجپوری فلم سے پہلے آفر آئے تھے ایک دو بار۔ میں بھوجپوری فلم کرنا بھی چاہتا ہوں، لیکن کہانی میرے لائق ہو اور بہت اچھی ہو تبھی۔ ایسا اس لیے کیونکہ بھوجپوری میری مادری زبان ہے اور اچھی کہانی ملے گی تو ضرور کروں گا۔
ممبئی فلم انڈسٹری اور دہلی میں تھیٹر کی دنیا میں کیا فرق ہے؟
دونوں کے تجربات بہت الگ الگ ہیں، ان میں بہت فرق ہے۔ تھیٹر میں اسٹیج کی باتیں ہوتی ہیں اور سنیما میں کیمرے کی باتیں ہوتی ہیں۔ دونوں الگ الگ ذرائع ہیں۔ تھیٹر میں پرفارمنس کی رسائی آڈیٹوریم تک ہے اور سنیما میں 2000 سے 4000 اسکرین، یا پھر جہاں تک رسائی ہو جائے۔ تھیٹر میں کام کرنا بہت اطمینان بخش ہوتا ہے، لیکن دونوں ہی میڈیم کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ دونوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دونوں ہی میڈیم میں جو اہم بات ہے وہ ہے ’اداکاری‘۔
آپ نے ویلن سے لے کر کامیڈین تک، حساس والد اور متوسط عمر والی ایک پیچیدہ شخصیت جیسے اہم کردار نبھائے ہیں... آپ ان کرداروں کے لیے تیاری کس طرح کرتے ہیں؟
12 سال میں نے اداکاری میں لگائے ہیں۔ اور اس کام کی پریکٹس میں 20 سالوں سے کر رہا ہوں۔ ہر اداکار کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے، کام کرنے کا الگ انداز ہوتا ہے۔ اسکرپٹ میں ایک گائیڈنس ملتی ہے کہ کس کردار کو کیسے نبھایا ہے، اسے کس طرح ایپروچ کریں۔ اور ہر اسکرپٹ میں ڈائریکٹر، رائٹر سے بات چیت، اپنی سمجھ اور شعور کا استعمال کر کے کردار کو تیار کیا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارم (او ٹی ٹی) نے فلم انڈسٹری میں کافی کچھ بدل دیا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
یہ بہت اچھا ماحول ہے۔ تبدیلیاں ہونی چاہئیں۔ ہر جگہ تبدیلی کا استقبال ہونا چاہیے۔ اس ذریعہ (پلیٹ فارم) کی وجہ سے کافی کہانیوں کو جگہ ملی ہے۔ بہت سی نئی اور دلچسپ کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ مقابلہ آرائی بڑھی ہے اور دستیابی بھی۔ دنیا بھر کا سنیما آپ دیکھ سکتے ہیں۔ او ٹی ٹی کی وجہ سے اداکاروں کے پاس کام زیادہ ہے اور تمام طرح کی کہانیاں بن رہی ہیں۔
آپ اپنی زندگی میں کس طرح کے فلسفہ پر عمل کرتے ہیں، اور کیا آپ دوسروں سے بھی اسی پر عمل کرنے کو کہتے ہیں؟
میں کبھی نہیں چاہتا ہوں کہ کوئی میرے فلسفہ کو فالو کرے، یعنی اس پر عمل کرے۔ ایسا اس لیے کیونکہ میں کوئی فلسفی نہیں ہوں۔ میرا فلسفہ روز بنتا ہے اور روز بگڑتا ہے۔ ہم آج جس بات کو مانتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ کل بھی اسی کو مانیں، کیونکہ ہمارے تجربات کل نئے ہو جاتے ہیں۔ زندگی میں ہمیشہ بدلاؤ ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے میں کچھ بھی فکس کر کے نہیں چلتا ہوں۔ میں کسی ایک فلسفہ پر قائم نہیں رہتا ہوں۔ یہ میں اپنے تجربات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ کسی اور کے لیے درست نہ بھی ہو۔ میں ’جیو اور جینے دو‘ میں یقین رکھتا ہوں۔ سب کے نظریات اتنے ہی ضروری ہیں جتنے میرے خود کے۔
کیا اسٹارڈم اور شہرت سے آپ کے لائف اسٹائل میں کوئی تبدیلی آئی؟
نہیں، کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے۔ لیکن کچھ الگ طرح کے بدلاؤ اب دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ماسک لگا کر اور بھیڑ بھاڑ سے بچ کر نکلنا پڑتا ہے۔ مجھے اس چیز کا بہت افسوس ہے، برا لگتا ہے کہ کوئی بچہ یا دوسرے لوگ بھی میرے ساتھ سیلفی لینا چاہتے ہیں اور میں نہیں دے پاتا۔ مجھے اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے، لیکن بات یہ بھی ہے کہ آج کے دور میں الگ طرح کے مسائل ہیں۔ بھیڑ بھی کئی بار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ سبھی لوگوں کے ساتھ تصویر کھنچوایا جا سکے۔ سیکورٹی کا مسئلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اب تو کووڈ پروٹوکول کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔
آپ کی ابھی کون کون سی فلمیں آنے والی ہیں؟
ابھی ’پھکرے-3‘ کی شوٹنگ کر رہا ہوں۔ ایک امیزون کی سیریز آنے والی ہے۔ ریلائنس کی ایک فلم ’شیر دل‘ پر بھی کام چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ ’او مائی گاڈ‘ فلم بھی آنے والی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined