دوسری سیاسی جماعتوں کو توڑکر حکومت سازی کی کوششیں کرنا بی جے پی کے پارلیمانی طریقہ کار کا اہم حصہ رہا ہے۔ لیکن بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اتحاد قائم کئے جانے کو خرید فروخت کا نام دینا نئی بات ہے۔ کم از کم جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کر کے یہی پیغام دیا ہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ بھی گورنر نے عید میلاد النبی کی چھٹی کے روز تقریباً ساڑھے نو بجے جاری کیا۔
دوسرا اشارہ جو جموں و کشمیر سے آ رہا ہے وہ بی جے پی کے اتحادیوں کے لئے ہے۔ پیغام یہ ہے کہ بی جے پی سے ہاتھ ملانا موت کو گلے لگانے جیسا ہے۔ ظاہری طور پر سیاسی تجزیہ کار اس قدم سے حیران رہ گئے ہیں اور اسے ’قومی سانحہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کل سے پہلے تک اسمبلی تحلیل کرنے کی تمام درخواستوں کو مرکزی حکومت نظر انداز کرتی آ رہی تھی۔ این این ووہرا کے بعد گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے ستیہ پال ملک نے اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے سے خرید و فروخت کا خدشہ بنا رہے گا۔ ایسی صورت حال میں اچانک اسمبلی تحلیل کا فیصلہ لینا تمام طرح کے شبہات کو جنم دیتا ہے، اور ثابت کرتا ہے کہ فیصلہ سیاسی وجوہات کی بنا پر لیا نہ کی آئینی وجوہات کی بنا پر۔
حالانکہ یہ بات صحیح ہے کہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس نے اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور جموں و کشمیر میں اپنے اقدام سے اسمبلی تحلیل کرواکر بی جے پی کی مدد سے ہونے والی ممکنہ حکومت سازی پر ضرور روک لگا دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پی ڈی پی میں ٹوٹ کا خدشہ بھی نہیں رہا جو گزشتہ دنوں زور پکڑ رہا تھا۔
رواں سال جون میں بی جے پی-پی ڈی پی اتحاد ٹوٹنے کے بعد جموں و کشمیر اسمبلی کو صرف معطل رکھنے کا گورنر کا فیصلہ اب مضحکہ خیز ثابت ہو چکا ہے۔ گورنر کی دلیل تھی کہ اسمبلی کو معطل رکھنے سے رکان اسمبلی اپنے علاقوں میں جان کر اپنے ایم ایل اے فنڈ سے ترقی کا کام کر سکتے ہیں۔ اس دلیل کی بنیاد پر تو گورنر کو حکومت سازی کے کسی امکان پر غور کرنا چاہئے تھا، ہڑبری میں چھٹی کے دن آدھی رات کو اسمبلی تحلیل نہیں کرنی چاہئے تھی۔
موجودہ اسمبلی میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کی مشترکہ طاقت 56 ارکان کی تھی۔ وہیں بی جے پی (26) اور سجاد لون (2) دھڑے کو ملا بھی لیا جائے تو صرف 28 ارکان ہوتے ہیں جو اکثریت کے ہدف 44 سے کافی دور تھے۔ لیکن گورنر نے فیصلے سے پہلے کسی بھی آئین کے ماہر سے رائے مشورہ نہیں لیا کہ کون سا اتحاد مستحکم حکومت دے سکتا ہے اور کون سا اتحاد خرید و فروخت کی کوشش کرے گا۔
Published: undefined
اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تو ریاست میں بی جے پی کے پہرے دار رام مادھو کی دلیل ہے۔ انہوں نے بظاہر تو اسے مذاق کا جامہ پہنانے کی کوشش کی، لیکن جو کچھ انہوں نے کہا اس پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ انہوں نے جمعرات کو ٹوئٹ میں لکھا کہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے حال ہی میں ہوئے شہری بلدیہ انتخابات کا سرحد پار سے ملے اشارے پر بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہیں پر بس نہیں کر دیا بلکہ مزید کہا، ’’ہو سکتا ہے کہ سرحد پار سے ہی انہیں ساتھ آنے کی ہدایت ملی ہو، تبھی حکومت سازی کا دعوی پیش کیا گیا ہے۔‘‘
اب یہ پانی کی طرح صاف ہو گیا ہے کہ گورنر نے مرکز کے اشارے پر وہی کیا جو ان سے کہا گیا۔ چونکہ سجاد لون نے بھی حکومت سازی کا دعوی پیش کیا تھا، تو صحیح طریقہ تو یہی تھا کہ گورنر انہیں اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کو کہتے۔ لون اگر 16 ارکان کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے تو بی جے پی کے کاندھے پر سوار پو کر اقتدار تک پہنچ جاتے۔ لیکن جب گورنر اور لون دنوں کو یہ لگا یہ اکثریت ثابت کرنی اب ٹیڑھی کھیر ہے تو نہوں نے اسمبلی تحلیل کر دی۔
ایک مزیدار بات یہ بھی ہوئی، کہا جا رہا تھا کہ چھٹی کا دن تھا اور راج بھون میں لگی فیکس مشین کام نہیں کر رہی تھی، اس لئے انہیں سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا خط نہیں ملا اور اس لئے اس کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ لیکن اسمبلی تحلیل ہونے سے کم از کم 6 گھنٹہ پہلے سے تمام میڈیا دکھا رہا تھا کہ انہوں نے حکومت سازی کا دعوی پیش کیا ہے۔ امید ہے کہ راج بھون میں اتنا اسٹاف تو ہوگا ہی جو گورنر کو تازہ سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کر دیتا ہوگا۔
چلو مان لیا کہ گورنر کو تازہ سیاسی سرگرمیوں کی ہوا تک نہیں لگی، تو پھر اچانک اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیوں لیا گیا، وہ بھی چھٹی کے روز آدھی رات سے چند لمحات قبل؟
اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا یہ تو طے ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ان تمام گورنروں اور مرکزی حکومت کو پھٹکار لگائی ہے جنہوں نے بیجا دلائل دے کر اتحاد کا مستقبل تک طے کرنے میں خود کو خدا مانا ہے۔ سپریم کورٹ نے کئی معاملات میں کہا ہے کہ اگر کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو جماعتوں کا گروپ متحد ہو کر اکثریت ثابت کر سکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے معاملہ میں بھی سپریم کورٹ کا نظریہ یہی رہ سکتا ہے۔
اور ہاں، ایک اہم بات جو اس پورے منظر نامہ سے ابھر کر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ جب تمام فیصلے مرکزی حکومت ہی کر رہی ہے تو ہمیں نام کے گورنر چاہئیں ہی کیوں؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز