گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق داخل ایک عرضی پر سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت پر تلخ تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے کئی سوال بھی کیے تھے۔ 23 نومبر کو اس معاملے میں پھر سماعت ہوئی جس میں مرکزی حکومت نے اپنی بات سامنے رکھی۔
Published: undefined
دراصل سپریم کورٹ مستقبل میں کالجیم سسٹم کے تحت سی ای سی اور ای سی کی تقرری کے عمل پر 23 اکتوبر 2018 کو داخل کی گئی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ اس عرضی میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مرکز یکطرفہ انتخابی کمیشن کے اراکین کی تقرری کرتی ہے۔ اس معاملے میں پانچ ججوں جسٹس اجئے رستوگی، انیرودھ بوس، رشی کیش رائے اور سی ٹی کمار کی بنچ سماعت کر رہی ہے۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمشنرز (ای سی) کی تقرری کا کام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر اعظم اور لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر کی کمیٹی کو سونپا جانا چاہیے۔
Published: undefined
آج ہوئی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اگر کل وزیر اعظم کے اوپر بھی کسی غلطی کا الزام لگتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری نبھا سکے۔ اس پر مرکزی حکومت کی طرف سے جواب دیا گیا کہ صرف تصورات کی بنیاد پر مرکزی کابینہ پر عدم اعتماد نہیں کیا جانا چاہیے۔ اب بھی اہل لوگوں کا ہی انتخاب کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ آئین میں چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرز کے کندھوں پر اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ اس لیے ان کی تقرری کے وقت غیر جانبدار اور شفاف عمل اختیار کیا جانا چاہیے، تاکہ بہتر شخص ہی اس عہدہ پر تقرر کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس بارے میں آئینی خاموش کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز