الیکشن کمیشن آف انڈیا نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے سامنے ایک حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ امیدواروں اور ان کے ایجنٹوں کے علاوہ کسی کے ساتھ ووٹر ٹرن آؤٹ ڈاٹا شیئر کرنے کا قانونی طور پر پابندی نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ ڈاٹا کو ظاہر کرنا ووٹرس میں الجھن پیدا کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے، اور اس سے قریبی مقابلوں میں ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اس معاملے میں سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ہر پولنگ بوتھ میں ہر ووٹ کو ریئل ٹائم میں ریکارڈ کیا جاتا ہے اور ایک رجسٹر رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی وقت پریزائڈنگ افسر کو صرف آخری کالم کو دیکھنا ہوگا اور وہ بتا دے گا کہ اس وقت تک کتنے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔
Published: undefined
دراصل رواں سال ہوئے لوک سبھا انتخاب میں ڈالے گئے ووٹ اور شمار کیے گئے ووٹوں کے درمیان فرق پر مشتمل ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن سے وضاحت کا مطالبہ لگاتار بڑھ رہا ہے اور کمیشن اس پر ابھی تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ فکر انگیز معاملہ ہے۔ یہ بات ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اسی ہفتہ ایک نیوز چینل سے بات چیت میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ رئیل ٹائم میں جمع کیے گئے ڈاٹا میں کسی بھی طرح کی خامی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انتخابی کمیشن کے ذریعہ اَپلوڈ کیے گئے ڈاٹا میں اب بھی خامیاں اور فرق دکھائی دیتی ہیں تو پیدا شبہات کو دور کرنا کمیشن کا فرض اور ذمہ داری ہے۔
Published: undefined
ایس وائی قریشی اسی ہفتہ نئی دہلی میں اے ڈی آر (ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس) کے ذریعہ جاری ایک رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ پر اَپلوڈ کیے گئے ڈاٹا سے ملان کرنے پر اے ڈی آر نے 538 لوک سبھا حلقوں میں خامیاں پائیں۔ 362 سیٹوں پر شمار کیے گئے ووٹ ڈالے گئے ووٹوں سے کم تھے، جبکہ 176 لوک سبھا سیٹوں پر شمار کیے گئے ووٹ ڈالے گئے ووٹ سے زیادہ تھے۔ اس کے علاوہ دو دیگر آزاد محققین نے بھی اعداد و شمار کا ملان کیا اور وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے۔ چار پارلیمانی حلقوں میں جو سب سے چھوٹے ہیں، اعداد و شمار بالکل میل نہیں کھاتے ہیں۔ وہ انتخابی حلقے ہیں امریلی، اتنگل، لکشدیپ، دادر نگر حویلی اور دمن دیو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined