ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کو خودکشی کے ایک کیس میں فوری ضمانت دیے جانے کو لے کر لگاتار سوال اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سربراہ دُشینت دَوے نے بھی ارنب معاملے کی فوری سماعت کیے جانے کو لے کر سوال اٹھائے تھے۔ چھٹی کے دوران ایسی فوری سماعت پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے دَوے نے عدالت کے سکریٹری جنرل کو چٹھی لکھ کر ’سلیکٹیو لسٹنگ‘ یعنی عدالت کے سامنے سماعت کے لیے دیگر معاملوں میں سے اسے ترجیح دینے کا الزام لگایا تھا۔
Published: undefined
اب کچھ لوگ جموں و کشمیر کے ایک صحافی کا حوالہ دیتے ہوئے ارنب گوسوامی کی ضمانت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ارنب گوسوامی کو ضمانت دینے کے معاملے میں سیشن کورٹ کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا گیا اور انھیں 8 دنوں میں ضمانت مل گئی، لیکن جموں و کشمیر کے ایک صحافی کے کیس میں 15 مہینے بعد پہلی سماعت ہوئی۔ انگریزی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ کی خبر کے مطابق یہ معاملہ آصف سلطان سے جڑا ہوا ہے جو ’کشمیر نریٹر‘ میگزین کے رپورٹر ہیں۔ فی الحال وہ وادی کی سب سے بڑی جیل میں ہیں جو کہ ان کے گھر سے قریب چار کلو میٹر دور واقع ہے۔
Published: undefined
صحافی آصف سلطان اپنی فیملی کے ساتھ سری نگر کے بٹمالو علاقے میں رہتے تھے، لیکن انھیں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ فی الحال وہ دو سال سے زیادہ وقت سے جیل میں بند ہیں۔ انھیں شدت پسندوں سے رشتہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ اہل خانہ اور کئی صحافی تنظیموں نے انھیں بے گناہ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ایماندارانہ صحافت کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا گیا۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ ارنب کی طرح ہی متعدد صحافی کئی مہینوں سے جیل میں بند ہیں اور معاملے کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن ارنب کے معاملے میں تیزی دکھائے جانے کے بعد سے دوسرے معاملے اب سرخیوں میں آ گئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ارنب کو بدھ کے روز سپریم کورٹ سے عبوری ضمانت ملی تھی جس کے بعد انھیں عدالتی حراست میں آٹھ دن گزارنے پڑے تھے۔ دوسری طرف آصف اس معاملے میں فی الحال قصوروار نہیں ٹھہرائے گئے ہیں، پھر بھی وہ سلاخوں کے پیچھے 800 سے زیادہ دن کاٹ چکے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined