ملک کی معاشی حالت پہلے ہی بد سے بدتر ہے، اور اب دھیرے دھیرے مختلف سیکٹرس میں کام کر رہے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی سیکٹر بحرانی کیفیت کے شکار ہیں۔ آٹو سیکٹر اور رئیل اسٹیٹ کے بعد اب پریشانی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے گلے پڑ رہی ہے جو کتائی کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کتائی شعبہ اس وقت سب سے بڑی پریشانی کے دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کی تقریباً ایک تہائی کتائی ملیں بند ہو چکی ہیں۔ تھوڑی بہت ملیں جو چل رہی ہیں وہ زبردست خسارے کا سامنا کر رہی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اب ہزاروں لوگوں کی ملازمتوں پر خطرے کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
Published: 20 Aug 2019, 3:10 PM IST
ناردرن انڈیا ٹیکسٹائل ملس ایسو سی ایشن کے مطابق ریاست اور سنٹرل جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسز کی وجہ سے ہندوستانی یارن عالمی بازار میں مقابلہ کے لائق نہیں رہ گیا ہے۔ اپریل سے جون کی سہ ماہی میں کاٹن یارن کی برآمدگی میں اس سال 34.6 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ جون میں تو اس میں 50 فیصد تک گراوٹ آ چکی ہے۔
Published: 20 Aug 2019, 3:10 PM IST
قابل ذکر ہے کہ ہندوستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بلاواسطہ اور بالواسطہ طور سے تقریباً 10 کروڑ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار دینے والا سیکٹر ہے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔
Published: 20 Aug 2019, 3:10 PM IST
دراصل اس سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں پیسے نہیں ملتے۔ اونچی شرح سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔ خام مال کی بھی لاگت کافی اونچی رہتی ہے۔ علاوہ ازیں کپڑوں اور یارن کی سستی درآمدگی سے بھی یہ سیکٹر تباہ ہو رہا ہے۔ ہندوستانی ملوں کو اونچی قیمت والے خام مال کی وجہ سے فی کلو 20 سے 25 روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا جیسے ممالک کی سستی شرح پر کپڑا درآمدگی کی دوہری مار پڑ رہی ہے۔
Published: 20 Aug 2019, 3:10 PM IST
غور طلب ہے کہ 2014 لوک سبھا انتخاب میں پی ایم مودی نے ہر سال کروڑوں ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت اپنے وعدے پر عمل کرنے میں پوری طرح ناکام رہی۔ اتنا ہی نہیں، ملازمت گزشتہ کئی سال سے ملک کے لوگوں کی سب سے بڑی فکر بنی ہوئی ہے۔ اب تو ملک کی بدتر معاشی حالت نے مودی حکومت کے لیے مشکلیں مزید بڑھا دی ہیں۔
Published: 20 Aug 2019, 3:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Aug 2019, 3:10 PM IST