قومی خبریں

کورونا کی دوسری لہر میں عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ، سروے میں حیرت انگیز انکشافات

کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہزاروں افراد کی جانیں گئیں، اسپتالوں میں بستر نہیں تھے اور دوائیوں کی بھی کمی محسوس کی گئی، اس برے وقت میں طبی خدمات سے جڑے کچھ لوگ لوٹ میں مصروف تھے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

کورونا کی دوسری لہر نے ہندوستان میں خوب کہرام مچایا۔ اس دوران ہزاروں افراد کی جانیں گئیں۔ اسپتالوں میں بستر نہیں تھے، اور دوائیوں کی بھی کمی محسوس کی گئی۔ اس برے وقت میں جب سبھی کو انسانیت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی، اُس وقت بھی طبی خدمات سے جڑے کچھ لوگ لوٹ میں لگے ہوئے تھے۔ دوا دکانداروں سے لے کر ایمبولنس کا انتظام و انصرام دیکھنے والے، اور پرائیویٹ لیب سے لے کر میڈیکل اشیاء بیچنے والوں تک نے انسانیت کو خوب شرمسار کیا۔ جب لوگ اپنوں کی جان بچانے کے لیے در در بھٹک رہے تھے، اپنوں کی جان کے لیے لوگوں سے رحم کی امید کر رہے تھے، تو تمام ذمہ داروں نے بے بس مریضوں اور تیمارداروں سے خوب وصولی کی۔

Published: undefined

’امر اجالا‘ کی ایک خبر کے مطابق ایسے وقت میں بھی انسانیت کے دشمنوں نے طے قیمت سے 500 گنا تک قیمت وصول کر مریضوں اور تیمارداروں کو نیم مردہ کر دیا۔ یہ انکشاف ایک رپورٹ میں ہوا ہے۔ دراصل کمیونٹی سوشل میڈیا پلیٹ فار لوکل سرکل نے ملک کے 389 اضلاع میں سروے کر ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کئی حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔

Published: undefined

لوکل سرکل نے کورونا کی دوسری لہر کے دوران اسپتالوں اور دوا دکانوں کے چکر کاٹنے والے لوگوں سے بات چیت کر ایک سروے تیار کیا ہے۔ یہ سروے ملک کے 389 اضلاع کے 38000 لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کیا گیا۔ اس سروے میں کووڈ کی دوسری لہر کے دوران استعمال کی جانے والی مریضوں کی دوائیں، ایمبولنس، میڈیکل اشیاء اور کووڈ رپورٹ تیار کرنے والی لیب میں وصولے گئے چارج کو لے کر ملک کے ہزاروں لوگوں سے بات کر ان کا تجربہ جانا گیا۔ لوکل سرکل کی اس رپورٹ میں کئی حیران کرنے والی باتیں سامنے آئی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بیشتر لوگ انسانیت بھول کر منافع کمانے میں لگے تھے۔ جس کو جہاں موقع ملا، اس نے متاثرین سے لوٹ کھسوٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کئی مہینوں تک ہوئے اس سروے کے دوران لوگوں کا درد ان کی آنکھوں کے بہتے آنسو کے ذریعہ سے باہر آیا۔ کیونکہ کووڈ کی دوسری لہر کے دوران انسانیت تو شرمسار ہوئی ہی، ساتھ ہی لوگوں کی جانیں بھی نہیں بچیں۔

Published: undefined

لوکل سرکل کے سروے کے مطابق کووڈ متاثرہ فیملی کے ہر تیسرے آدمی سے آکسی میٹر، آکسیجن اور آکسیجن کنسنٹریٹر کے دکانداروں اور ذمہ داروں نے طے قیمت سے 300 سے 400 گنا زیادہ تک قیمت وصول کی۔ سروے کی رپورٹ کے مطابق 18 فیصد لوگ ایسے تھے جنھیں آکسیجن سلنڈر اور آکسیجن کنسنٹریٹر کی قیمت 300 سے 400 گنا تک وصولی گئیں۔ اس سروے کے دوران لوگوں نے بتایا کہ جو چائنیز کنسنٹریٹر 30 سے 35 ہزار کے تھے اس کے لیے ضرورت مندوں نے ایک لاکھ روپے تک خرچ کیے۔ جب کہ 200 سے 300 روپے والے آکسی میٹر کے لیے دکانداروں نے مریضوں اور تیمارداروں سے ڈیڑھ ہزار سے تین ہزار روپے تک وصول کیے۔ حالانکہ اس دوران 14 فیصد لوگوں نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ یہ سبھی سامان ایم آر پی سے ڈسکاؤنٹ پر بھی کچھ دکانداروں نے لوگوں کو دیئے۔

Published: undefined

اس رپورٹ کے مطابق کورونا کی دوسری لہر کے دوران سب سے زیادہ لوٹ ایمبولنس والوں نے مچائی۔ رپورٹ کے مطابق 70 فیصد لوگوں نے بتایا کہ ایمبولنس کے لیے ان سے بہت زیادہ قیمتیں وصول کی گئیں۔ ایمبولنس کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے اعداد و شمار کے مطابق 50 فیصد لوگوں سے ایمبولنس کے لیے طے کردہ کرایہ سے 500 فیصد تک زیادہ رقم وصول کی گئی۔

Published: undefined

کورونا کی دوسری لہر کے دوران ریمیڈیسیور اور فیبی فلو دوائیوں کی طلب بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ لوگ سوشل میڈیا پر ان دوائیوں کے لیے اپیل کر رہے تھے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان دوائیوں کے لیے بھی کئی گنا قیمتیں وصول کی گئیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ریمیڈیسیور اور فیبی فلو جیسی دواؤں کے لیے مریضوں کو 10 گنا سے زیادہ تک کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ بازار میں جو دوا ہزار روپے میں دستیاب تھی، اسے 10 ہزار روپے سے بھی زیادہ قیمت پر فروخت کیا گیا۔ 50 فیصد سے زیادہ لوگوں کو دواؤں کے لیے دوا دکانداروں نے منمانی کرتے ہوئے زیادہ قیمتیں وصول کیں۔ اتنا ہی نہیں، کورونا جانچ کے لیے بھی منمانے پیسے لیے گئے۔ حالانکہ جانچ میں زیادہ منافع خوری نہیں دیکھی گئی۔ 13 فیصد لوگوں نے بتایا کہ ان سے جانچ کے نام پر خوب پیسہ وصول کیا گیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined