قومی خبریں

وقف ترمیمی بل: ایک ضلع کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

ان ساری تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلم علماء کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعیین و تشریح کریں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر یو این آئی</p></div>

فائل تصویر یو این آئی

 

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے دعوی کیا ہے کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ مودی حکومت جلد ہی پارلیمنٹ میں وقف سے متعلق دو بل پیش کرنے والی ہے  ایک کے ذریعہ وقف ایکٹ 1923 کو کینسل کیا جائے گا اور دوسرے کے ذریعہ وقف ایکٹ 1995 میں دور رس تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ یہ تبدیلیاں اتنی خطرناک ہیں کہ اب ایک ضلع کلکٹر فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائداد وقف ہے یا نہیں اور اس کا فیصلہ آخری ہوگا۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ نئے بل لانے میں حکومت وہی روش اپنا رہی ہے جو وہ پہلے سے کرتی آئی ہے، یعنی  مسلم سماج  سے کوئی مشورہ کئے بغیر یہ نیا قانون پاس کیا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک بنیادی اور اہم مسئلے پر متعلقہ سماج سے بات کرنے کی حکومت نے ضرورت نہیں سمجھی۔

Published: undefined

اس بل کے ذریعہ حکومت ”وقف “ کی نئی تعریف کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جو پچھلے پانچ سال سے اسلام پر پابند رہا ہو وہی اپنی جائداد کو وقف کر سکتا ہے۔ ترمیمات میں حکومت یہ بھی طے کر رہی ہے کہ وقف کی جائداد میں ہونے والی آمدنی کہاں خرچ ہوگی۔ یہ دونوں باتیں اسلامی قانون کے خلاف ہیں کیونکہ اسلامی قانون کے تحت کوئی بھی، یہانتک کہ غیر مسلم بھی، اپنی جائداد وقف کر سکتا ہے اور وقف کی آمدنی صرف اسی مد میں صرف کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے (واقف) نے طے کیا ہو۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ نئی ترمیمات نے یہ راستہ بھی کھول دیا ہے کہ وقف کاؤنسل اور ریاستی وقف بورڈوں کے ممبران غیر مسلم ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔ مجموعی طور پر نئی ترمیمات کی منظوری ہونے پر ایک کلکٹر راج وجود میں آئے گا جو فیصلہ کرے گا کہ کون جائداد وقف ہے اور کون نہیں ہے۔ وقف ٹرائیبونل کے فیصلے بھی آخری نہیں ہوں گے جبکہ ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔

Published: undefined

سابق صدر دہلی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ نئی ترمیمات سے یہ نئی ریت بھی پکی ہو رہی ہے کہ حکومت اہم اسلامی معاملات میں مسلم سماج سے مشورہ نہیں کرے گی۔ یہ ریت طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں 2019 کے بل سے شروع ہوئی تھی جب ایک وزیر نے پارلیمنٹ میں فخریہ اعلان کیا تھاکہ اس سلسلے میں مسلم سماج سے بات نہیں کی گئی ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں بھی یہی ہو رہا ہے اور جلد ہی وہ مرحلہ آئے گا جب مرکزی پارلیمنٹ میں بھی مسلم سماج سے مشورہ کئے بغیر ایک بل لاکر مرکزی یونیفارم سول کوڈ نافذ کر دیا جائے گا۔

Published: undefined

نئی ترمیمات نے ریاستی حکومتوں کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ممبر مسلمان بھی ہوں۔ اسی طرح موجودہ ترمیمات کے ذریعے متولی کی واقف کے ذریعہ زبانی تعیین کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ زبانی طور سے کوئی جائداد وقف نہیں کی جاسکے گی۔

Published: undefined

انہوں نے دعوی کیاکہ ان ساری تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلم علماء کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعیین و تشریح کریں۔ اسی کے ساتھ وقف چلانے کی ذمہ داری بھی غیر مسلمین کے ہاتھوں میں دی جا رہی ہے جو کہ مذہبی سماجوں کے اس حق کی پا مالی کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔ حکومت کو اس خطرناک راستے پر چلنے سے گریز کرنا چاہئے اور اس اہم مسئلے پر مسلم علماء اور بالخصوص مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمے داروں سے بات کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined