’’حالات بہت دردناک ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے جنھوں نے پہلے اس کا تجربہ نہیں کیا۔ یہ کشمیریوں کے لیے ایک خوفناک وقت ہے۔ یہ ہمارے ملک کے مستقبل، اس کی نرم روی اور کردار پر سنگین اثر ڈال سکتا ہے۔ زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کھلی ہیں لیکن وہاں نہ ٹیچر ہیں اور نہ ہی اسٹوڈنٹس۔ اس سے پہلے بھی ہم نے ریاست میں اتھل پتھل دیکھی ہے۔ پچھلے تقریباً 30 سالوں یعنی 1989 سے ریاست میں خون خرابہ ہو رہا ہے۔ تباہی ہو رہی ہے، تشدد ہو رہا ہے۔ وہ لوگ جو ملک کے اتحاد کے لیے کھڑے رہے، قربانیاں دیں، گولیوں کا سامنا کیا اور عام لوگ آج خود کو دھوکہ کھایا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں آگے مزید خطرہ۔ اس پر فوراً دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
یہ پرسوز بیان کسی عام آدمی کا نہیں بلکہ سی پی آئی (ایم) سنٹرل کمیٹی کے رکن محمد یوسف تاریگامی کا ہے جن کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 ہٹنے کے بعد کشمیر میں قبرستان جیسا سناٹا پسرا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں چار بار رکن اسمبلی رہے یوسف تاریگامی نے ریاست کے موجودہ حالات سے متعلق کئی باتیں انگریزی روزنامہ ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ کو بتائیں۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’آپ نے تہاڑ جیل میں کتنی بار مظاہرے دیکھے ہیں؟ کشمیر آئیے اور خود دیکھ لیجیے۔ میں کہانیاں نہیں بنا رہا، میں ایک ذمہ دار شہری ہوں۔ جمہوریت کا بنیادی اصول حکومت کو جوابدہ بنانا ہے۔ لیکن ہمارے معاملے میں دفعہ 370 کو منمانے ڈھنگ سے ختم کر دی گئی۔ جموں و کشمیر میں آئین کو تباہ کر دیا گیا۔‘‘
Published: undefined
جموں و کشمیر میں لیڈروں کے نظر بند کیے جانے پر تاریگامی کافی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب میں کشمیر لوٹتا ہوں تب مجھے اپنی قسمت کا پتہ نہیں ہوتا۔ میرے کئی ساتھی یا تو ہاؤس اریسٹ ہیں یا نظر بندی کیمپوں میں ہیں۔ نوجوان جیلوں میں سڑ رہے ہیں، لیکن ان کے گھر والوں کو پتہ نہیں کہ ان کی اولادیں کہاں ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’کیا مجھے اپنی تکلیف بیان کرنے کی بھی آزادی نہیں ہے؟ اپنی نظربندی کے اسباب کو جاننے کا حق نہیں ہے؟ لیکن ہندوستانی آئین جموں و کشمیر میں ناپید ہے۔‘‘
Published: undefined
کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے لیے 72 سالہ یوسف تاریگامی سیاسی لیڈروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انھوں نے انگریزی روزنامہ سے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ ملک پر راج کرنے والے لیڈروں کی سنک ہے۔ وہ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے لوگ خود تکلیف سہنے کو تیار ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو دہلی کے لوگوں کو ایک ہفتہ انٹرنیٹ کے بغیر زندگی بسر کرنے دیں۔ حکومت کہتی ہے کہ دفعہ 370 کی سہولتیں ختم کرنے کے بعد ریاست میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی۔ ہاں... قبرستان (کشمیر) مین سناٹا ہے۔ میرے کشمیر، ہمارے کشمیر کو قبرستان مت بناؤ۔‘‘
Published: undefined
تاریگامی نے اپنی بات چیت کے دوران اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا کہ دفعہ 370 اور 35اے ختم کرنے کا فیصلہ ایک دن ضرور واپس ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگست میں لیا گیا فیصلہ (دفعہ 370 ختم کرنے کا) واپس لینا ہی ہوگا۔ یہ ہمارا عز م ہے۔ یہ کب ہوگا، کیسےہوگا پتہ نہیں۔ ہمارے معاملے کے جج اس ملک کے لوگ ہیں۔ ہم سپریم کورٹ سے انصاف پانے کے لیے بھی پرامید ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز