جموں: وحشیانہ اور شرمناک کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کے ملزمان کے وکیل انکور شرما کی جانب سے قائم کی گئی 'اک جٹ جموں' نامی تنظیم کے بینر تلے اتوار کو یہاں ایک سمینار منعقد ہوا جس میں مقررین نے جموں کے ہندوﺅں سے کہا کہ وہ مسلمانوں کو اپنی زمینیں نہ فروخت کریں اور انہیں رہائشی مکانات و دکانیں کرایہ پر نہ دیں۔ سمینار کے مقررین کی مانیں تو جموں میں مسلمانوں کا زمینیں خریدنا، مکانوں اور دکانوں کا کرایہ پر لینا ایک گہری سازش کا حصہ ہے۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ضلع کٹھوعہ کے رسانہ میں گجربکروال خاندان سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی کا قتل خود مسلمانوں نے کیا اور اس کا مقصد جموں سے ڈوگروں کا انخلا تھا۔
بی جے پی کے سابق لیڈر اور تاریخ کے پروفیسر ہری اوم نے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا 'میری آپ سے گذارش ہے کہ اپنی زمینوں مت بیچو، اپنے گھر کرایہ پر مت دو۔ اپنی دوکانیں کرایہ پر مت دو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی زمین فروخت کرنی پڑتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو اپنا مکان کرایہ پر دینا پڑتا ہے اور دوکانیں کرایہ پر دینے پڑتی ہیں۔ دیجئے مگر اپنے لوگوں کو۔ کوئی آپ کو ایک دوکان کا کرایہ پانچ ہزار روپے دیتا ہے، اگر وہ غیر ہے تو اس کو منع کرکے اپنے کسی آدمی کو صرف دو ہزار روپے کرایہ پر دو۔ زمینیں خریدنا، مکانوں اور دوکانوں کو کرایہ پر لینا ایک بڑی سازش ہے۔ آپ ایک مکان کرایہ پر دیں گے تو پانچ برس کے بعد وہ ایک محلہ بنے گا۔ آپ جس علاقہ میں ہو، آپ کو وہیں رہنا ہے اور وہیں کام کرنا ہے۔ آپ ہیرا نگر کے ہو تو ہیرا نگر کو سنبھالو۔ آپ کٹھوعہ کے رہنے والے ہو تو وہاں غیروں پر نظر رکھو'۔
انکور شرما نے 'اک جٹ جموں' متعدد ہندو تنظیموں کے اشتراک سے بنائی ہے۔ سمینار جس کا عنوان 'سیو جموں' رکھا گیا تھا کی صدارت تنظیم کے چیئرمین انکور شرما نے کی۔ سمینار میں انکور شرما، پروفیسر ہری اوم کے علاوہ مصنف و ماہر تعلیم مدھو کشور، آزاد ممبر اسمبلی ادھم پور پون کمار گپتا، مہاجر کشمیری پنڈت سشیل پنڈت اور متعدد ہندو تنظیموں کے سربراہوں اور کارکنوں نے شرکت کی۔
پروفیسر ہری اوم نے اس موقع پر کہا کہ جموں میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کا مقصد جموں میں کشمیر جیسے حالات پیدا کرنے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 'سنہ 1994 میں جموں میں مسلمانوں کے تین محلے تھے۔ تین مسجدیں تھیں۔ آج جموں میں مسلمانوں کے 42 محلے ہیں۔ 42 میں سے 30 محلے ایسے ہیں جن میں آپ کا داخل ہونا ناممکن ہے۔ آپ وہاں جا نہیں سکتے۔ یہ محلے کشمیر سے آئے ہوئے لوگوں نے بسائے ہیں۔ ان محلوں کے قیام کا مقصد جموں میں کشمیر جیسے حالات پیدا کرنا ہے۔ اس کا مقصد جموں سے ہندوﺅں کو کھدیڑنا ہے۔ جموں کے اندر بٹھنڈی سو فیصد مسلم آبادی والا علاقہ آباد ہوگیا ہے'۔
Published: 11 Nov 2018, 11:09 PM IST
پروفیسر ہری اوم کا مزید کہنا تھا 'جموں نے کبھی دیش کو دھوکہ نہیں دیا۔ اس کے برعکس دلی کی سرکاریں لگاتار جموں کے ساتھ دھوکہ کرتی رہیں۔ میں 1953 سے سن رہا ہوں کہ آپ کو نہیں بولنا ہے۔ اگر آپ بولیں گے تو کشمیر میں ایجی ٹیشن چھڑ جائے گی۔ مسلمان آپ سے ناراض ہوجائیں گے۔ صبر کرتے کرتے نوبت یہ آگئی ہے کہ جموں کی اپنی شناخت خطرے میں ہے'۔
خاتون مصنف و ماہر تعلیم مدھو کشور نے کہاکہ جموں کو مسلم اکثریتی خطہ بنانے کی سازش ہورہی ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا 'ایک کیمونٹی کے لوگوں کو قانونی طور پر دعوت دی جارہی ہے کہ جتنی مرضی اتنی زمین استعمال کرلو۔ مسلم کیمونٹی کے لوگوں کو برما اور بنگلہ دیش سے یہاں لاکر بسایا جارہا ہے۔ پوری طرح سے جموں کو گھیر لیا جارہا ہے۔ ایک طرف کشمیری لوگ یہاں آکر بس رہے ہیں، اور دوسری جانب باہر کے لوگوں کو بھی دعوت دی جارہی ہے۔ جموں کو مسلم اکثریتی خطہ بنانے کی جو سازش ہورہی ہے، اس کو روکنا بہت ضروری ہے'۔
مدھو کشور نے ریاست کے تین ٹکڑے کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا 'ریاست کو تین حصوں میں بانٹا جانا چاہیے۔ جموں اور لداخ کو وادی سے الگ کیا جانا چاہیے اور کشمیر میں پنڈتوں کو ہر حالت میں ہوم لینڈ دیا جائے۔ وہاں پنن کشمیر بسایا جائے'۔ مدھو کشور کے مطابق کٹھوعہ میں گجربکروال خاندان سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی کا قتل خود مسلمانوں نے کیا اور اس کا مقصد جموں سے ڈوگروں کا انخلا تھا۔ان کا کہنا تھا 'کٹھوعہ واقعہ کا مقصد جموں سے ڈوگروں کو بھگانا تھا۔ یہ قتل انہوں نے خود کیا۔ خطہ میں کئی ایک ضلعے مسلم اکثریتی بن گئے ہیں۔ وہاں لوگوں (مسلمانوں) کو زمینیں لوٹنے دی گئی ہیں'۔
Published: 11 Nov 2018, 11:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Nov 2018, 11:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز