کیا مودی حکومت نے داووس میں ہوئی ورلڈ اکونومک فورم کی 48ویں سالانہ میٹنگ کا خرچ اٹھایا تھا؟ اس بارے میں ایک ٹوئٹ کیا گیا ہے جس میں دعویٰ ہے کہ یہی وہ شرط تھی جس کی بنیاد پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ورلڈ اکونومک فورم کے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اس دعویٰ کے بعد ملا جلا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کوئی اس پر حیرانی ظاہر کر رہا ہے تو کوئی ناراضگی۔
سینئر کانگریس لیڈر شکیل احمد نے بھی اس ٹوئٹ کے جواب میں اپنی بات رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے منموہن سنگھ نے کبھی بھی اس پرائیویٹ این جی او کی داووس میٹنگ میں حصہ لینے کی منظوری نہیں دی۔ حالانکہ انھیں 5 مرتبہ اس کے لیے دعوت دی گئی۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں نریندر مودی پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ہیں جنھوں نے داووس میں ہوئی ورلڈ اکونومک فورم کی میٹنگ میں حصہ لیا۔ اس سے قبل مشترکہ محاذ حکومت میں وزیر اعظم رہ چکے ایچ ڈی دیوگوڑا نے اس میں شرکت کی تھی۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ بل کلنٹن کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ بھی پہلے امریکی صدر ہیں جنھوں نے داووس میٹنگ میں حصہ لیا ہے۔
حالانکہ ابھی اس سلسلے میں کوئی تصدیق تو نہیں ہوئی ہے کہ کیا واقعی ہندوستانی حکومت نے انکم ٹیکس دہندگان کے پیسے سے اس میٹنگ کا خرچ اٹھایا۔ ویسے بھی اس میٹنگ کو امیر لوگوں کی بحث بازی کا اڈہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے دعوے سامنے آنے کے بعد حکومت پر اس سلسلے میں وضاحت پیش کرنے کا دباو ضرور بن گیا ہے۔
ایک طرف جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کھلے ہاتھوں سے گلوبلائزیشن کی وکالت کرتے ہوئے دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ اور کثیر ملکی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کارنے کی دعوت دے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف داووس سے کچھ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں جو موضوع فکر ہو سکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مودی امریکہ کے دو تکنیکی طور پر مضبوط شخصیتوں گوگل اور فیس بک کے صدر دفتر گئے تھے۔ اس ضمن میں آپ کو بین الاقوامی فائنانسر جارج سوروس کا داووس میں دی گئی تقریر دلچسپ معلوم ہوگی۔ سوروس نے کہا کہ "حق پرست ممالک اور بڑی اور ڈاٹا کنٹرول کرنے والی اجارہ داری میں یقین کرنے والی آئی ٹی کمپنیوں کے درمیان ایک ایسا تعاون اور اتحاد بن رہا ہے جو کارپوریٹ سرویلانس یعنی نگرانی کا ایک نظام تیار کرے گا، اور جو پہلے سے موجود سرکاری کنٹرول والے نگرانی سسٹم کو مضبوط کرے گا۔ اس سے حق پرستی کا ایک ایسا جال یا نظام کھڑا ہو جائے گا جس کا تصور آلس ہکسلے یا جارج آرویل نے بھی نہیں کیا ہوگا۔" قابل ذکر ہے کہ ہکسلے اور آرویل بیسویں صدی کے مشہور ناول نگار اور مصنف ہیں۔
سوروس کا اندازہ ہے کہ اس طرح کے اتحاد کا امکان سب سے پہلے چین اور روس میں ہے۔ سوروس نے اس اتحاد کو 'اَن ہولی' یعنی ناپاک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی بڑی تکنیکی کمپنیاں ہر معاملے میں امریکی کمپنیوں سے کم نہیں ہیں اور انھیں اپنے صدر شی ژنپنگ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک امکان یہ ہے کہ امریکی کمپنیاں ان بڑے اور تیزی سے بڑھتے بازاروں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے سیکورٹی سے سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔ ان ممالک کے تاناشاہ لیڈر ایسے اتحادوں سے خوش ہوں گے کیونکہ اس طرح انھیں اپنے ملک کی آبادی پر کنٹرول کرنے کا نیا اسلحہ ملے گا، ساتھ ہی امریکہ اور دوسرے ممالک میں اثر بڑھانے کا موقع ملے گا۔
اس درمیان جس طرح سے ہندوستانی میڈیا نے داووس میں وزیر اعظم کے تقاریب کی کوریج کی ہے اس کی بھی خوب تنقید ہو رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ہندوستانی ٹی وی چینل نے تو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس کی بیوی سے داووس میں ہندی گانوں کی فرمائش تک کر دی۔ اس کا بھی خوب مذاق بنا۔
سینئر کالم نویس سواتی چترویدی نے ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں اس پورے انعقاد پر اپنی ہنسی نہیں روک پا رہی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ رگھو رام راجن نے کچھ سمجھداری کی بات کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined