دو دن بعد 8 نومبر کو نوٹ بندی کے اعلان کو پورے دو سال ہو جائیں گے، وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ وہ اعلان تھا جس نے لاکھوں ہندوستانیوں کی زندگی پلٹ کر رکھ دی۔ لوگوں کو اپنا ہی پیسہ بینکوں سے نکالنے کے لئے دن دن بھر لائنوں میں لگے رہنا پڑا۔ صرف یہی نہیں لوگوں کوچھوٹی موٹی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور کئی لوگوں کے جمے جمائے کاروبار ختم ہو گئے۔ ان لوگوں کے لئے یہ اعلان کسی موت کے اعلان سے کم ثابت نہیں ہوا، آج بھی اس کو یاد کر کے وہ خوف سے کانپ اٹھتے ہیں، اس اعلان کی وجہ سے کئی افراد کو اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ ایسے ہی کچھ لوگوں کی درد بھری داستان جب نظر سے گزرتی ہے یا کانوں میں سنائی دیتی ہے تو دماغ پریشان ہو جاتا ہے کہ حکومت کو ایسا فیصلہ لینے کی کیا ضرورت تھی؟۔
اتر پردیش کے ضلع گورکھپور کے گگہا پولس تھانا حلقہ میں رییاؤ نام کا ایک گاؤں ہے جس میں 58 سالہ چھیدی پرساد رہتے تھے اور وہ وہاں 1200 مرغیوں کا ایک فارم چلاتے تھے، تین بیٹے اور تین بیٹیوں کے والد چھیدی پرساد اپنی زندگی اور کاروبار سے بہت مطمئن تھے، دو بیٹے مزدوری کرتے تھے جبکہ چھوٹا بیٹا پڑھائی کرتا تھا۔ نوٹ بندی کے وقت ان کے پاس 50 ہزار کے وہ نوٹ تھے جن کو بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ وہ 11 نومبر کو اسے جمع کرانے کے لئے رکہٹ ایس بی آئی برانچ گئے، دن بھر لائن میں لگے رہے پر ان کا نمبر نہیں آیا، شام کو گھر لوٹے تو ان کو یہ فکر ستانے لگی کہ کہیں پوری رقم ڈوب نہ جائے اور یہ صدمہ انہیں اتنا گہرا لگا کہ انہیں دل کا دورہ پڑ گیا۔ گھر والے انہیں اسپتال لے کر بھاگے لیکن ان کی موت ہوگئی۔ چھیدی پرساد کے چھوٹے بیٹے امرناتھ بتاتے ہیں کہ خاندان صدمہ میں ہے اور دس افراد کے خاندان کی ذمہ داری اب ان کے کندھوں پر ہے۔
نوٹ بندی کے دوران ممبئی کے قریب رہنے والے 60 سالہ دیپک بھائی شاہ کی موت ہوگئی تھی اور ان کے خاندان کے لوگ آج بھی بہت غصہ میں ہیں۔ خاندان کے افراد کو غصہ اس بات پر ہے کہ آج تک ان کے خاندان کی تکلیف کے بارے میں کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ان کے خاندان کی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ میڈیا سے بات کر کے کیا کرنا، حکومت نے تو آج تک کوئی تسلی بھی نہیں دی اور ہمیں انصاف ملنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ اسٹیش روڈ پر واقع کیتھولک کوآپریٹو بینک کی بلڈنگ کے نیچے دھوپ میں کھڑے کھڑے شاہ گر پڑے تھے۔ خاندان کے لو گ انہیں مقامی ڈاکٹر کے پاس لے گئے لیکن شاہ کی موت ہو چکی تھی، شاہ پہلے ہی سے دل کے مریض تھے۔ نوٹ بدلنے کے لئے وہ لائن میں لگتے تھے لیکن ان کا نمبر نہیں آ رہا تھا۔ وہ لگاتار تین دن سے لائن میں کھڑے ہو کر اپنے نمبر کا انتظار کر رہے تھے۔ مقامی پولس اسٹیشن میں یہ معاملہ درج کرایا گیا، لیکن اس حادثہ کو یاد کرنے یا اس پر کارروائی کرنے کے لئے کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔
Published: 06 Nov 2018, 9:01 AM IST
71 سالہ بابو لال والمیکی بھنڈ کے فوف قصبہ سے لگے گڑھا چاچنڈ میں رہتے تھے۔ وہ فوج سے ریٹائر تھے۔ 17 نومبر 2016 کو وہ نوٹ بدلنے کے لئے لائن میں لگے ہوئے تھے۔ گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد انہیں وہیں دل کا دورہ پڑ گیا اور ان کی جان چلی گئی۔ ان کے پوتے روہتاش کہتے ہیں ’’بابا کے جانے کے بعد گھر پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ ان کی تہریویں کے لئے لوگوں سے پیسے لینے پڑے، چار ماہ تک خاندان دانے دانے کو محتاج رہا ‘‘۔ نوٹ بندی کے دنوں کو یاد کر کے سابق فوجی کے خاندان کے لوگ آج بھی کانپ اٹھتے ہیں، نوٹ بندی کے اعلان کو سن کر بابا نے ایک ہی بات کہی تھی کہ یہ تو سرکاری نوٹ ہیں یہ کیسے بیکار ہو جائیں گے؟ نوٹ بدلنے کے لئے بینکوں کے باہر بھیڑ کی مارا ماری کی خبروں کو سن کر ان کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اپنی پینشن کے 12 ہزار روپے بدلوا لائیں۔ روہتاش کہتے ہیں ’’اسی لئے بابا 17 نومبر کو مجھے ساتھ لے کر اپنے 12 ہزار روپے بدلوانے بھنڈ گئے تھے۔ بینک کے باہر لائن میں صبح ہی سے لگ گئے تھے، 9 بجے انہیں دل کا دورہ پڑا جب انہیں اسپتال لے کر پہنچے، لیکن جب تک بہت دیر ہو چکی تھی‘‘۔
21 نومبر 2016 کو دیوریا ضلع کے گل ہریا گاؤں سبھا کنکپورا کے رہنے والے رام ناتھ کشواہا ترکلوا ایس بی آئی سے روپے نکانے گئے تھے، ایک روز پہلے ہی ان کی بڑی بہو کی ڈلیوری ہوئی تھی، رام ناتھ کے بینک میں 40 ہزار روپے جمع تھے۔ انہوں نے سوچا اس میں سے 30 ہزار بیٹے کو دے دیں۔ بینک کی لمبی لائن میں کھڑے تھے کہ اچانک بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ سے ان کی موت ہوگئی، رام ناتھ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اور یہ بھرا پورا خاندان اچانک یتیم ہو گیا۔ ان کے چھوٹے بیٹے دھرم ویر کشواہا کہتے ہیں ’’بابو جی کے انتقال کے بعد ہمارے اوپر ایسی پریشانی آئی کہ آج تک پریشان ہیں‘‘۔
یہ واقعات پڑھ کر اور سن کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا کسی حکمراں کو ایسے فیصلے لینے سے پہلے تمام پہلوؤں پر غور نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ حکومت کی ایک بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے اس لئے حکومت کو ملک کےعوام سے معافی ضرور مانگنی چاہیے۔
Published: 06 Nov 2018, 9:01 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Nov 2018, 9:01 AM IST