قومی خبریں

نیٹ معاملے کی آزادانہ فارنسک جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے کانگریس نے پوچھے حکومت سے کئی سخت سوال

پون کھیڑا نے پوچھا ہے کہ اس سال نیٹ میں 600 نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کی تعداد جب 80,468 ہے اور سرکاری میڈیکل کالجوں میں صرف 55 ہزار سیٹیں ہیں تو ان طلباء کو سرکاری کالجوں میں کیسے داخلہ ملے گا؟

<div class="paragraphs"><p>کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا / آئی اے این ایس</p></div>

کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا / آئی اے این ایس

 

نیٹ امتحان اور اس کے نتائج پر جاری تنازعے کے درمیان کانگریس نے اس پورے معاملے کی آزادانہ جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ بالا مطالبہ کرتے ہوئے یہ سوال بھی کیا ہے کہ جب اس سال نیٹ میں 600 نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کی تعداد 80,468 ہے اور سرکاری میڈیکل کالجوں میں صرف 55 ہزار سیٹیں ہیں، تو پھر ان طلباء کو سرکاری کالجوں میں بھلا کیسے داخلہ مل سکتا ہے؟

Published: undefined

پارٹی کے ترجمان پون کھیرا نے جمعہ (14 جون) کو کہا کہ مودی حکومت اور وزیر تعلیم کو سپریم کورٹ کی نگرانی میں نیپ گھوٹالے کی آزادانہ فارنسک جانچ کا حکم دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 1 لاکھ میڈیکل سیٹوں کے لیے 24 لاکھ امیدوار امتحان دیتے ہیں۔ سرکاری میڈیکل کالجوں میں 55 ہزار سیٹیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ SC، ST، OBC، EWS طلباء زیادہ تر رعایتی فیس پر ان کالجوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب مارکس بنام رینک بڑھائے گئے  ہیں تو غریب گھروں کے امیدوار کیا کریں گے؟ جن لوگوں نے 550 مارکس حاصل کیے ہیں ان کی تعداد 1.4 لاکھ سے زیادہ ہے۔

Published: undefined

کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ اگر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ امتحان کا پورا عمل شفاف ہے تو گزشتہ اور اس سال 580 سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کے مکمل نتائج کو پبلک کیا جائے۔ 580 سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباء کے سینٹرس کو بھی عام کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتنے طلباء اپنیے مقام سے دور نیٹ دینے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے طالب علم تھے جنہیں 12ویں پاس کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑی لیکن نیٹ میں انہوں نے بہترین نمبر حاصل کیے ہیں۔ اس لیے 12ویں بورڈ کے نمبروں کو نیٹ کے نمبروں کے حساب سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ اگر اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہزاروں طلباء نے بورڈ کے امتحانات میں کم اور نیٹ میں بہت زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں تو پیپر لیک ہونے کے الزامات درست ہیں۔

Published: undefined

پون کھیڑا نے کہا کہ ان سنٹرس کی ویڈیوز جاری کی جائیں جہاں کے طلبہ کو بڑے مارکس حاصل ہوئے، اس سے گھوٹالے کی نشاندہی میں مدد ملے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ امتحان کے بعداین ٹی اے آفس میں او ایم آر بھرا گیا تھا یا کوئی نقالی ہوئی تھی۔ اس سے سوائی مادھوپور (راجستھان) سنٹر میں دئے جانے والے پیپر کے بارے میں پتہ چلے گا کہ وہ ایک ہی یا کئی تھا کیوں کہ طلبہ پیپر لے کر چلے گئے تھے۔ اس کے بعد شام 6.30 بجے دوبارہ امتحان ہوا اور اگر پیپر وہی تھا اور میڈیم تبدیل کیا گیا تھا تو یقیناً پیپر لیک ہوا ہے۔

Published: undefined

اس پریس کانفرنس میں کانگریس کے ترجمان نے حکومت سے 6 سوالات پوچھے ہیں۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ نیٹ یوجی 2024 پیپر لیک کی جانچ کر رہی پٹنہ پولیس نے پا یا کہ امتحان میں شامل ہونے والے طبلہ نے ریکیٹ میں شامل ’دلالوں‘ کو 30 سے 35 لاکھ روپئے تک بڑی رقم ادا کی؟  اس ضمن میں 60 کروڑ روپے کے لین دین کی بھی اطلاعات ہیں۔ کیا وزیر تعلیم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ نیٹ پیپر لیک میں بہار میں 13 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے؟ کیا وزیر تعلیم اس بات سے بھی انکار کر سکتے ہیں کہ گجرات کے گودھرا میں نیٹ یوجی دھوکہ دہی کرنے والے ریکیٹ کا پردہ فاش ہوا ہے،جس میں کوچنگ سنٹر چلانے والا ایک شخص، ایک ٹیچر اور ایک دیگر شخص سمیت تین لوگ شامل ہیں۔ کیس کی تحقیقات میں طلباء، ان کے والدین اور ملزمین کے درمیان 12 کروڑ روپے سے زائد کے لین دین کا انکشاف ہوا ہے۔

Published: undefined

پون کھیڑا نے کہا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس سال یعنی 2024 میں 67 ٹاپرز ہیں جنہیں 720 کا بہترین اسکور دیا گیا۔ 2023 میں یہ تعداد صرف 2 تھی۔ 2022 میں کوئی بھی امیدوار پورے نمبر حاصل نہیں کر سکا تھا۔ بہادر گڑھ کے ایک ہی سنٹر سے 6 طلباء نے زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کئے۔ این ٹی اے نے امیدواروں کو گریس مارکس دینے کا یہ طریقہ کیوں اپنایا؟ یہی نہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس سال 690 سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا؟ نیٹ کے نتائج 14 جون کے بجائے 4 جون کو یعنی دس دن پہلے کیوں جاری کیے گئے؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined