بھجن پورہ مزار اب کراول نگر کا گیٹ وے ہے۔ مزار جلا دیا گیا تھا لیکن امیدیں اب بھی زندہ ہیں۔ اس لیے عقیدت مندوں کی بھیڑ یہاں کم نہیں ہو رہی ہے۔ عقیدتمندوں میں سنیتا بھی شامل ہے اور رخسانہ بھی۔ یہاں سے کراول نگر، چاند باغ اور شیو وِہار کی طرف راستہ جاتا ہے۔ بی جے پی کے موہن سنگھ بشٹ یہاں سے عام آدمی پارٹی کے درگیش پاٹھک کو شکست دے کر الیکشن جیتے ہیں۔ اس سے پہلے کپل مشرا اسی اسمبلی حلقہ سے انتخاب جیتے تھے۔ برہمن اور گوجروں کی بالادستی والے اس علاقے میں اقلیتوں کے خلاف نشان زد تشدد کو لے کر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ کراول نگر میں اقلیتوں کے خلاف گروہ بند تشدد کے خوفناک نشان ملتے ہیں۔ یہ تشدد 24 اور 25 فروری کو ہوا۔
Published: undefined
کراول نگر میں اب بھی پولس صرف اہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دے رہی ہے۔ ہمیں بھی گاڑی چھوڑنے کی ہدایت دی گئی۔ پیدل جانے کے لیے منع نہیں کیا گیا۔ کراول نگر کے شروع میں ہی کپل مشرا کا ’ہیڈکوارٹر‘ ہے۔ فی الحال اس میں سیل لگا دی گئی ہے اور اس کی حفاظت میں 10-8 جوان بندوق لیے کھڑے ہیں۔ دراصل یہ ’ہیڈ کوارٹر‘ یہاں کے کونسلر طاہر حسین کا چار منزلہ گھر ہے۔ ہمارے ساتھ میں چل رہے وسیم نے ہمیں بتایا کہ کپل مشرا نے رکن اسمبلی رہتے وقت اسی جگہ کو اپنا دفتر بنایا تھا۔ کپل مشرا کا الیکشن بھی یہیں سے لڑا گیا تھا۔ کپل مشرا اور طاہر حسین میں گہری دوستی تھی۔ بی جے پی میں جانے کے بعد سے دونوں کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ اب جو بلڈنگ کل تک کپل مشرا کا ’ہیڈکوارٹر‘ کہا جاتا تھا اسے طاہر حسین کا ’فساد ہیڈکوارٹر‘ کہا جا رہا ہے۔ یہی بات ہم نے یہاں کھڑے ایک دیگر شخص سے پوچھ لی تو انھوں نے تصدیق کی اور کہا کہ ’’دونوں دوست تھے۔ جو بھی کرتے تھے مل کر کرتے تھے!‘‘
Published: undefined
خیر! منگا نگر میں 23 سال کی ملائکہ فرحت اپنے 55 سال کے والد کے ساتھ اسی بلڈنگ کے سامنے ایک پوری طرح جل چکی دکان میں پوری طرح ٹوٹ چکے اپنے باپ کو سہارا دے رہی ہے۔ ملائکہ کے والد محمد یوسف یہاں ’پردھان منتری جن اوشدھی کیندر‘ کے نام سے ایک دوائیوں کی دکان چلاتے تھے۔ ملائکہ کچھ بھی بولنا پسند نہیں کرتی۔ بہت پوچھنے پر وہ کہتی ہے ’’میں کیا کہوں۔ میری تو سب دوست ہندو ہیں، ہم ساتھ میں پڑھتے ہیں۔ میرے کالج کا نام ماتا سندری کالج ہے۔ پیر کو دن بھر پاپا نے بچانے کی جدوجہد کی۔ پھر لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ اب نکل جائیں، تو وہ جان بچا کر نکل گئے۔ اس کے بعد یہاں آگ لگا دی گئی۔‘‘ ملائکہ کے والد یوسف کہتے ہیں ’’کسی کی بھی نہیں سنی ان فسادیوں نے۔ ان کا تو کوئی مذہب ہی نہیں۔ یہ نہ ہندو ہیں اور نہ مسلمان۔ بس مجھے ایک تسلی ہے کہ میرا گھر یہاں نہیں تھا ورنہ وہ بھی جلا دیا جاتا۔‘‘ محمد یوسف مسلم اکثریتی علاقے جعفر آباد میں رہتے ہیں۔
Published: undefined
مجید نامی ایک طالب علم ہمارے پاس آ کر رک جاتا ہےاور ہماری بات سنتا ہے۔ پھر کچھ ٹھہر کر ہم سے کہتا ہے ’’سر آپ آگے ضرور جانا۔ آگے جا کر آپ وہ دیکھیں گے جو کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے آپ کے! میری دکان بھی جلا دی گئی ہے۔ ٹی وی چینل والے آگے کی تصویریں نہیں دکھا رہے ہیں۔ سب کچھ ’ٹارگیٹ، سیٹ، فائر‘ ہوا ہے۔ ٹی وی تو ربڑ کی گلیل میں الجھا ہے۔ انسانوں پر یکطرفہ حملہ ہوا ہے۔ وار زون بن گیا تھا یہاں۔ اب تک لاشیں نہیں گن پا رہے لوگ۔ چن چن کر نشانہ بنائے گئے ہیں۔ ایک گلی میں چار گھر اقلیتی طبقہ کے ہیں تو وہ چاروں راکھ ہو گئے۔ اکثریتی آبادی والوں کے گھروں پر آنچ پہنچی تو خود انھوں نے ہی بجھا دیا۔ سر، پلیز آگے ضرور جانا۔‘‘
Published: undefined
آگے بڑھنے پر جنتی نامی خاتون سے ملاقات ہوتی ہے۔ دو جوان بیٹیوں کی مایوس ماں۔ 35 گز زمین میں اس کے تین منزلہ مکان میں اب بیٹھنے کی واحد صاف جگہ سفید پتھر کی سیڑھی ہی بچی ہے۔ وہ کہتی ہے ’’بیڈ، کرسی، صوفہ سب خاک ہو چکا ہے۔ سلنڈر میں آگ لگا کر گھر میں پھینک دیا گیا تھا۔ ہمارے مکان کی چھت کے راستے وہ بدمعاش آئے تھے۔ میری بیٹی کی چوڑیاں بکھری پڑی ہیں اوپر۔ شادی کرنی تھی اس کی۔ سب لوٹ کے لے گئے۔ ظالم، شیطان لٹیرے گھر کے پیچھے رہتے ہیں۔ ہمارا پورا گھر اب کھنڈہر بن چکا ہے۔ دل بھی کھنڈہر ہو چکا ہے۔‘‘ اپنی بات چیت میں جنتی بالکل بدحواس معلوم پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہے ’’میری بیٹی کی شادی کا سب سامان لوٹ کر لے گئے۔ کچھ بھی نہیں بچا۔ گھر کو بھی جلا دیا۔ پولس بلانے سے بھی نہیں آئی۔‘‘
Published: undefined
ہم جہاں کھڑے ہیں وہ کراول نگر کی گلی نمبر 4 ہے جہاں قومی اقلیتی کمیشن کی ٹیم بھی پہنچی ہے۔ ٹیم کے اراکین گلی کے اندر خاک میں ملا دیئے گئے مکانوں کے باہر کھڑی خواتین سے بات کر رہے ہیں۔ اقلیتی کمیشن کے رکن عاطف رشید بے تحاشہ رو رہی افسانہ کو دلاسہ دے رہے ہیں۔ برباد ہو چکی افسانہ کا گھر ختم ہو چکا ہے۔ بالکل ختم۔ کالی دیواریں بربادی کی داستاں کہہ رہی ہیں۔ یہ وہی گلی ہے جس میں بی ایس ایف جوان کا گھر بھی جلا دیا گیا۔ یہاں عاطف رشید جب ان کی بات سن رہے ہیں تو پاس ہی کی گلی نمبر پانچ سے پتھر آتا ہے اور شور مچ جاتا ہے کہ ’’سر دیکھیے آپ کے سامنے بھی پتھر آ رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
عاطف رشید کے ساتھ کئی لوگ ہیں۔ بڑی تعداد میں پیرا ملٹری ہے۔ دہلی پولس بھی ان کے ساتھ میں کھڑی ہے۔ اس کے باوجود پتھر چلنے سے ماحول میں کچھ افرا تفری پیدا ہو گئی۔ عاطف رشید نے ایس ایچ او پون کمار سے کہا کہ ’’یہ کیا ہے... ہمارے سامنے بھی پتھر چل رہے ہیں... پھر حالات معمول پر کیسے ہوئے۔‘‘ کچھ پولس اہلکار دوڑ کر دوسری طرف جاتے ہیں اور پھر آ کر بتاتے ہیں کہ پتھر گلی نمبر پانچ کی ایک چھت سے چلایا گیا ہے۔
Published: undefined
بہر حال، یہاں موجود فیروز نامی ایک شخص کہتا ہے کہ ’’گلی نمبر 3 اور گلی نمبر 4 کے مکانات پوری طرح سے جل چکے ہیں۔ ان دونوں گلیوں میں اقلیتی طبقہ کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں چند ایک گھر ہندوؤں کے ہیں، لیکن انھیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔ باہر سڑک پر صرف ایک طبقہ کے لوگوں کی دکانیں جلائی گئی ہیں۔‘‘ فیروز کی بات کی تصدیق گلی نمبر 3 میں ہردیش کمار شرما کا گھر کرتا ہے جس کے نیم پلیٹ پر دہلی پولس انسپکٹر لکھا ہوا ہے۔ اس گھر کی دیوار پر ذرا بھی آنچ نہیں آئی ہے۔ اسی کے پاس والی گلی نمبر 4 میں بی ایس ایف کے جوان کا گھر جل چکا ہے۔
Published: undefined
قابل غور بات یہ ہے کہ گلی نمبر 1، 2 اور 5 میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان گلیوں میں اقلیتی طبقہ کے لوگ نہیں رہتے۔ گلی نمبر پانچ کے کنارے سڑک پر ’امن شو روم‘ موجود تھا جو خاک ہو چکا ہے۔ یہاں قریب میں ہی کھڑا ماجد نامی شخص کہتا ہے ’’پیسے والا مسلمان سب سے زیادہ آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ اچھا کاروبار تھا۔ کئی کروڑ کا نقصان ہو گیا بے چارے کا۔‘‘ شو روم کے باہر کھڑے ہوئے ٹرک میں جلی ہوئی بائیک کا ملبہ بھرا جا رہا ہے۔ پاس میں ہی گلی نمبر 5 (سمراٹ کالونی) میں رہنے والے لوگ یہاں تعینات آر اے ایف کے جوانوں کو پوری سبزی کھلا رہے ہیں۔ آلودہ کپڑا پہنے تقریباً 13 سال کا ایک بچہ دھیرے سے کہتا ہے ’’انہی لوگوں نے آگ لگائی اور اب پولس والوں کو کھانا کھلا رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @RahulGandhi