قومی خبریں

دہلی تشدد: پولس والوں کی بے رحمانہ پٹائی سے زخمی فیضان کی موت

فیضان کے گھر والوں میں اس کی موت کے سبب بہت ناراضگی تھی اور وہ انتہائی مایوسی کے بھی شکار تھے۔ لیکن وہ اپنی ناراضگی کا اظہار میڈیا کے سامنے نہیں کر پا رہے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

شمال مشرقی دہلی میں رونما ہوئے تشدد کے واقعات کے درمیان ایک ویڈیو خوب وائرل ہوا تھا جس میں 23 سالہ فیضان کو دیگر چار نوجوانوں کے ساتھ پولس کی ایک ٹیم بے رحمی سے پٹائی کر رہی تھی۔ موصول ہو رہی خبروں کے مطابق فیضان اس پٹائی کی وجہ سے ملے زخموں کی تاب برداشت نہیں کر سکا اور موت کی آغوش میں چلا گیا۔ وائرل ویڈیو میں دیکھنے سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ پولس نوجوانوں پر بے رحمی سے حملہ کر رہی ہے اور بچے قومی ترانہ گاتے ہوئے لہولہان ہوئے جا رہے ہیں۔ وردی میں نظر آ رہی پولس ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے بھی سنائی دے رہی تھی کہ ’’تمھیں آزادی چاہیے نہ؟ تو لو آزادی۔‘‘

Published: undefined

اس تشدد آمیز ویڈیو کے شوٹ ہونے کے دو دن بعد فیضان کی موت ہو گئی۔ ویڈیو میں فیضان پٹائی کی وجہ سے نیم مردہ ہو کر زمین پر گرا ہوا نظر آ رہا ہے اور اس کے باوجود وردی والے لوگ فیضان کو لگاتار پیٹ رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ فیضان کو پولس گرفتار کر کے جیل لے گئی تھی اور وہاں بری طرح سے اس کو زد و کوب کیا۔ پھر جب حالت ایسی ہو گئی کہ اس کا زندہ رہنا مشکل نظر آنے لگا تو فیضان کے گھر والوں کو اسے لے جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔ فیضان کو تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ وہ سسکیاں لیتا ہوا موت کی نیند سو گیا۔

Published: undefined

ہندی نیوز پورٹل پر فیضان کے تعلق سے ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پورٹل کی ٹیم جب فیضان کے گھر ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے پہنچی تو ان کے اندر اپنے بیٹے کی موت کے سبب بہت ناراضگی تھی اور وہ انتہائی مایوسی کے بھی شکار تھے۔ لیکن وہ اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کر پا رہے تھے۔ جب فیضان کا بڑا بھائی نعیم گھر پہنچا تو اس نے میڈیا کی ٹیم کو بتایا کہ 23 فروری کو فیضان اس جگہ پر موجود تھا جہاں سی اے اے مخالف مظاہرہ چل رہا تھا۔ نعیم نے کہا کہ ’’اچانک آنسو گیس کے گولے چاروں طرف سے چھوڑے جانے لگے۔ اسی درمیان کچھ پولس والے آئے اور انھوں نے وہاں کھڑے لڑکوں کو بے رحمی سے پیٹنا شروع کر دیا۔ پولس والے اس وقت تک لڑکوں کو پیٹتے رہے جب تک کہ وہ نیم مردہ حالت میں نہیں پہنچ گئے۔‘‘

Published: undefined

نعیم اس کے بعد ہوئے واقعات کے بارے میں بتاتا ہے کہ زخمی لڑکوں کو علاج کے لیے جی ٹی بی اسپتال لے جایا گیا، لیکن وہاں بھی ان کا علاج صحیح سے نہیں کیا گیا۔ پھر انھیں جیوتی نگر پولس اسٹیشن لے جایا گیا۔ وہاں انھیں دو دن تک رکھاگیا۔ نعیم نے بتایا کہ ’’میرا بھائی مر رہا تھا اور پولس والوں نے ہمیں اس سے ملنے بھی نہیں دیا۔ انھوں نے ہمیں گالیاں دیں اور پولس اسٹیشن سے دھکے مار کر بھگا دیا۔‘‘

Published: undefined

نعیم کا کہنا ہے کہ 25 فروری کو انھیں پولس تھانہ سے فون آیا اور فیضان کو لے جانے کے لیے کہا گیا۔ نعیم نے الزام عائد کیا کہ پولس یہ جانتی تھی کہ فیضان مرنے والا ہے، لیکن وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ حوالات میں مرے، اس لیے ہمیں بلایا گیا۔

Published: undefined

فیضان کے ایک دیگر رشتہ دار ببلو کا کہنا ہے کہ ’’فیضان کو لینے جب ہم پولس اسٹیشن گئے تو ہم نے دیکھا کہ فیضان کے منھ سے اور سر سے بہت زیادہ خون نکل رہا ہے۔ وہ پوری رات درد سے تڑپتا رہا اور بس یہی کہہ رہا تھا کہ پولس والوں نے اسے بہت مارا ہے۔‘‘ ببلو نے بتایا کہ جب صبح فیضان کو جی ٹی بی اسپتال لے جایا گیا تو وہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined