مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں آج دہلی حکومت کے اختیارات اور سروسز سے متعلق بل پیش کر دیا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے اس بل کو پیش کیا جس پر کل یعنی 2 اگست کو بحث ہوگی۔ اس بل کی کانگریس رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بل ریاستی حکومت کے حقوق پر حملہ کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بل وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ یہ اس کی قبرگاہ بنے گا۔ یہ بل آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
Published: undefined
دہلی سروس بل کی مخالفت اے آئی ایم آئی ایم (آل انڈیا مجلس اتحادالملسمین) رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے بھی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ شطرنج یا لوڈو کا کھیل ہے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا رکن کے سی وینوگوپال نے اس بل کے تعلق سے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دہلی سروس بل پوری طرح سے وفاقی ڈھانچہ کے خلاف ہے اور غیر جمہوری بھی ہے، ہم اس کی پرزور مخالفت کریں گے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے بھی بل کو پوری طرح سے غیر قانونی قرار دیا۔
Published: undefined
دہلی سروس بل کی اپوزیشن کی کئی پارٹیوں نے مخالفت کی ہے جس پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’آئین میں قانون بنانے کا پورا حق دیا گیا ہے۔ عدالت نے بھی قانون بنانے سے نہیں روکا ہے۔ جو بھی مخالفت ہو رہی ہے وہ سیاسی ہیں۔‘‘
Published: undefined
آج جب لوک سبھا میں بل پیش کیا گیا تو اس پر خوب ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن کی طرف سے لگاتار نعرہ بازی ہوئی جس کے بعد لوک سبھا کو ملتوی کر دیا گیا۔ لوک سبھا اسپیکر نے ہنگامہ کر رہے اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کو متنبہ بھی کیا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
اس درمیان مرکزی حکومت کو دہلی سروس بل پر اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک یعنی بی جے ڈی کا ساتھ مل گیا ہے۔ بی جے ڈی کے پیناکی مشرا نے بل کو پیش کرنے کی حمایت کی۔ بی جے ڈی دونوں ایوانوں میں دہلی سروس بل کی حمایت میں ووٹ ڈالے گی۔ بی جے ڈی کے اس فیصلے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ دہلی سروس بل کا راجیہ سبھا میں پاس ہونا یقینی ہے۔ دہلی سروس بل کی حمایت میں اب کم از کم 128 ووٹ پختہ ہو گئے ہیں۔ لوک سبھا میں بی جے ڈی کے 12 اراکین پارلیمنٹ ہیں اور راجیہ سبھا میں اس کے 9 اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ وائی ایس آر سی پی پہلے ہی حکومت کو اس پر حمایت دینے کا اعلان کر چکی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز