چاند رضوی 50 سال کے ہیں اور وہ گزشتہ کچھ دنوں سے ان مردہ خانوں کے چکر لگا لگا کر پریشان ہیں جہاں شمال مشرقی دہلی کے تشدد زدہ علاقوں سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں لائیں گئی ہیں۔ چاند رضوی کو اپنی بھتیجی کے 30 سالہ شوہر مبارک علی کی تلاش ہے۔ مبارک علی ایک دہاڑی مزدو ہے، جو 24 فروری کو بھجن پورہ میں اپنے گھر سے کام پر جانے کے لئے نکلا تھا لیکن آج تک واپس نہیں لوٹا۔ رضوی کو خدشہ ہے کہ مبارک علی کو ہجوم نے قتل کر دیا ہے اور وہ اس کی لاش کو تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔
Published: undefined
گریٹر نوئیڈا میں رہنے والے چاند رضوی آس پاس کے تمام اسپتالوں کے وارڈوں اور مردہ خانوں میں جا رہے ہیں اور مبارک کے بارے میں کسی بھی اطلاع کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں کیوں کہ اس کی بیوی کا رو رو کر برا حال ہے۔ مبارک کے تین چھوٹے بچے ہیں، جن میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں شامل ہیں۔ چاند رضوی ابھی تک الہند، لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال اور دیگر نرسنگ ہومز میں جاکر معلوم کر چکے ہیں، ان تمام اسپتالوں میں مبارک کی لاش نہیں لائی تئی۔ لیکن جی ٹی بی اسپتال کے حوالہ سے وہ صاف صاف نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہاں کے مردہ خانے سے انہیں یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ لاش کی شناخت کر سکیں۔
Published: undefined
چاند رضوی اکیلے شخص نہیں ہیں جو کسی اپنے کی لاش کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جمعرات کے روز اکیلے جی ٹی بی اسپتال میں ہی سات نامعلوم لاشیں موجود تھیں۔ اکیلے جی ٹی بی اسپتال میں جمعرات کے روز سات نامعلوم لاشوں کو لایا گیا، جبکہ ایل این جے پی اسپتال میں بھی دو نامعلوم لاشیں موجود تھیں جن کی دیر رات گئے تک شناخت نہیں ہو سکی۔
Published: undefined
تمام نامعلوم لاشیں یا تو بری طرح جل چکی ہیں، یا انہیں گولی ماری گئی ہے یا پھر چاقو سے ان پر شدید وار کیا گیا ہے۔ یہ تمام تر لاشیں جعفر آباد، مصطفی آباد، لونی، عثمان پور اور گھونڈا وغیرہ ان مسلم اکثریتی علاقوں کی ہیں جہاں پر ہندوتوا حامی ہجوم نے منظم حملہ کیا تھا۔ یہ ہجومی حملہ شہریت ترمیمی قانون کے حوالہ سے پیدا ہونے والے تنازعہ کے بعد کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اسپتال انتظامیہ اور دہلی پولیس بیشتر خاندانوں کو رسائی کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے حکام کے ذریعہ انہیں دھکے دے کر باہر نکالا جا رہا ہے۔ فاطمہ بھی انہیں افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنے کسی عزیز کو کھو دیا ہے۔ انتظار کر کر کے تھک چکی فاطمہ نے کہا ’’دہلی پولیس اور اسپتال کب تک ہمیں انتظار کراتے رہیں گے! ہم غریب لوگ ہیں اور کوئی ہماری پریشانیوں کو نہیں سن رہا۔ ہم پر جو دکھوں کا پہاڑ ٹوٹا ہے کیا وہ کم ہے! میں یہاں مردہ خانے میں اپنے 70 سالہ والد کی لاش کا انتظار کر رہی ہوں۔ کیا انسانیت بالکل مر چکی ہے؟‘‘
فاطمہ سے الگ چاند رضوی اسپتال کے عہدیداروں اور صحافیوں کو مبارک علی کی تصویر دکھا رہے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ فاطمہ کے پاس کوئی اسمارٹ فون نہیں ہے، لہذا وہ ایسا نہیں کر پا رہی۔
Published: undefined
مبارک کے غمزدہ بھائی محسن نے کہا، ’’میرا بھائی مبارک نوئیڈا سے کھجوری کے پاس جنریٹر کی مرمت کے لئے آیا تھا۔ ہم نے اسے وہاں جانے کو منع کیا تھا لیکن اس نے کہا کہ وہ اس علاقہ کو کو بخوبی جانتا ہے۔ اس کے پاس کار بھی تھی۔ کار کھجوری کے پاس جل ہوئی حالت میں برآمد ہوئی ہے لیکن اس کے اندر کوئی لاش نہیں تھی۔ کار کے پاس مکمل طور پر جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ جی ٹی بی ہسپتال میں ایک لاش موجود ہے جس کی شناخت مبارک کے نام سے ہوئی ہے لیکن جب میں نے جسم کی جانچ کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے بھائی کی لاش نہیں ہے۔ ہم ابھی بھی اس کی تلاش کر رہے ہیں۔“
Published: undefined
شمال مشرقی دہلی دہائیوں میں بدترین تشدد کی گواہ بنی ہے اور اس میں کم از کم 45 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوگئے ہیں۔ جس وقت تشدد کی آگ بھڑک رہی تھی نوجوان اور درمیایہ عمر کے لوگ بیس بال کے بلوں، لوہے کی سلاخوں، لاٹھیوں اور فاولوں سے لیس ہو کر ٹولیاں بنا کر کھجوری اور سیلم پور کے درمیان گھوم رہے تھے۔ ان مشتعل لوگوں نے دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا اور جو بھی سامنے آیا اسے دھمکیاں دے کر پوچھا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز