دہلی کی سیاست میں افرا تفری پیدا ہو گئی ہے۔ بی جے پی اس ماحول کا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ یہ دیگر بات ہے کہ اس کا اندیشہ طویل مدت سے تھا کہ عام آدمی پارٹی کے 20 ممبران اسمبلی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن آج الیکشن کمیشن کے ذریعہ اپنی رپورٹ صدر جمہوریہ کو بھیجے جانے کی خبر پھیلتے ہی ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ حالانکہ عآپ کی دہلی حکومت پر یہ تلوار اسی وقت سے لٹکی ہوئی ہے جب سے دہلی ہائی کورٹ نے ان 20 ممبران اسمبلی سے متعلق معاملے کو منافع کا عہدہ مانا اور اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس کے بعد سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے انتخابی کمیشن کے پاس اس ایشو سے متعلق رائے جاننے کے لیے اسی ایشو پر مبنی عرضی کو بھیجا تھا۔ آج انتخابی کمیشن نے اسی عرضی پر اپنی رائے صدر جمہوریہ کو بھیجی ہے۔
اب سیدھا سوال یہ ہے کہ دہلی کا کیا ہوگا؟ کیا دہلی کی عآپ حکومت ختم ہو جائے گی؟ کیا اروند کیجریوال اسمبلی تحلیل کر کے انتخاب کرائیں گے؟ کیا جوڑ توڑ کر کے بی جے پی دہلی کا اقتدار حاصل کر پائے گی؟ کیا دہلی کی باگ ڈور عآپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ان میں کئی سوالات ایسے ہیں جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ بی جے پی کے لیے ’ہنوز دلّی دور است‘۔ اس کے کئی اسباب ہیں جن میں سے چھ اہم اسباب کچھ اس طرح ہیں:
1. گجرات میں انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا پورا زور لگانا پڑا۔ چونکہ دہلی سمیت ملک بھر میں بی جے پی کے حق میں ویسا ماحول نہیں ہے جیسا کہ دو سال پہلے تک تھا، اس لیے فی الحال دہلی پر قبضہ کرنا اس کے لیے خواب ہی ہے۔
2. دہلی میں فی الحال عآپ کے خلاف بہت زیادہ ناراضگی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ عآپ سرکار سے اگر کچھ ناراضگی ہے بھی تو اس کا فائدہ کانگریس کو مل سکتا ہے کیونکہ نوجوان طبقہ بی جے پی کے جھوٹے وعدوں سے خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔
3. دہلی میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے، ہندو-مسلم کارڈ کھیلنے میں بی جے پی ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائی ہے اس لیے اس طرح کی کوئی کوشش بھی اسے برسراقتدار نہیں کر پائے گی۔
4. گوا اور اروناچل پردیش میں جس طرح سے بی جے پی نے ممبران اسمبلی کی خریدو فروخت کی اور انھیں توڑ کر اپنی حکومت بنا لی تھی، ویسی حالت دہلی میں نہیں ہے۔ یہاں زبردست اتھل پتھل کے باوجود عآپ کے پاس ممبران اسمبلی کی تعداد حکومت چلانے کے لیے کافی ہے۔ اگر بی جے پی دہلی میں گوا اور اروناچل پردیش جیسی کوشش کرتی بھی ہے تو قومی سطح پر ہنگامہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
5. دہلی کے سابق وزیر کپل مشرا پر بی جے پی پہلے ہی ناکام داؤ کھیل چکی ہے اس لیے اروند کیجریوال سے ناراض کمار وشواس پر بھروسہ کر کے دوبارہ کپل والا داؤ کھیلنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
6. اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو بی جے پی ان 20 سیٹوں میں سے زیادہ تر جیت جانے کے باوجود دہلی کی حکومت سے بہت دور رہے گی، اور اس کے لیے بھی اسے پوری طاقت لگانی پڑے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined