دہلی ہائی کورٹ نے نجیب احمد کی گمشدگی کے معاملے میں 8 ستمبر کو سی بی آئی کو کلوزر رپورٹ داخل کرنے کی اجازت دے دی۔ نجیب جے این یو کا طالب علم تھا جو یہاں سے اکتوبر 2016 کو لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گویل کی بنچ نے نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کی اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں سی بی آئی کے ذریعہ کلوزر رپورٹ داخل کرنے کی مخالفت کی گئی تھی۔ پیر کے روز سماعت کے دوران سی بی آئی کے وکیل نے بنچ کو بتایا کہ ایجنسی نے معاملے سے متعلق سبھی چیزوں کا تجزیہ کر لیا ہے اور معاملے کو بند کرنے کے لیے کلوزر رپورٹ داخل کرنا چاہتی ہے۔
Published: undefined
عدالت کے فیصلے کے بعد نجیب کی ماں نے کہا کہ ’’میرے بیٹے کو غائب ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔ مجھے عدالت سے کافی امیدیں تھیں۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد ہم جہاں سے آگے بڑھے تھے پھر وہیں پہنچ گئے ہیں۔ سی بی آئی نے عدالت کو گمراہ کیا ہے۔ اب ہم سپریم کورٹ جائیں گے۔‘‘
اس سے قبل نجیب کی ماں نے کہا تھا کہ ’’ہم نے سی بی آئی کو 9 ایسے لوگوں کے نام دیے تھے جنھوں نے نجیب کو پریشان کیا تھا۔ اگر ایجنسی نے سختی سے پوچھ تاچھ کی ہوتی تو ضرور کچھ نہ کچھ پتہ چلتا۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’آج تک کسی وزیر نے ہماری حمایت میں ایک ٹوئٹ بھی نہیں کیا۔ لیکن مجھے عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہے۔‘‘
Published: undefined
نجیب کی ماں فاطمہ نفیس نے 14 اور 15 اکتوبر کی درمیانی شب میں جے این یو ہاسٹل سے اپنے بیٹے کے غائب ہونے کی جانچ کرنے کے لیے غیر سی بی آئی افسر کو شامل کرنے کے ساتھ اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) سے معاملے کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
Published: undefined
ایم ایس سی سال اوّل کا طالب علم نجیب احمد تقریباً دو سال پہلے مبینہ طور پر آر ایس ایس سےمنسلک طلبا تنظیم اے بی وی پی کے اراکین سے ہاتھا پائی ہونے کے بعد گمشدہ ہو گیا تھا۔ اس کے گمشدہ ہونے کی اطلاع ملنے کے بعد اے بی وی پی کے خلاف الزامات عائد کیے گئے لیکن اس تنظیم نے اس معاملے میں اپنا ہاتھ ہونے سے صاف انکار کر دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا