دہلی میں وزیر اعلیٰ بمقابلہ لیفٹیننٹ گورنر جنگ جاری ہے۔ ٹرانسفر-پوسٹنگ کو لے کر مرکزی حکومت آرڈیننس لا رہی ہے جس کے خلاف وزیر اعلیٰ لگاتار آواز اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے کانگریس سمیت سبھی پارٹیوں سے اس سلسلے میں حمایت کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اس درمیان کانگریس نے مرکز کے اس آرڈیننس کے خلاف کیجریوال کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے کانگریس نے انتظامی، سیاسی اور قانونی تینوں وجوہات کی تفصیل دی ہے۔
Published: undefined
کانگریس کے سینئر لیڈر اجئے ماکن نے اس سلسلے میں ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’گفتگو دو اہم تبصروں کے ساتھ شروع ہونی چاہیے۔‘‘ پھر وہ لکھتے ہیں ’’سب سے پہلے، کیجریوال کی حمایت کر کے ہم اپنے کئی قابل احترام لیڈران: 21 اکتوبر 1947 کو بابا صاحب امبیڈکر، 1951 میں پنڈت نہرو اور سردار پٹیل، 1956 میں پنڈت نہرو کے ذریعہ لیا گیا ایک اور فیصلہ، وزیر داخلہ کی شکل میں لال بہادر شاستری جی کے ذریعہ 1964 میں اور 1965 میں وزیر اعظم کی شکل میں، اور 1991 میں نرسمہا راؤ کے ذریعہ لیے گئے دانشورانہ فیصلوں کے خلاف کھڑے نظر آئیں گے۔‘‘ پھر وہ لکھتے ہیں ’’دوسرا، اگر یہ آرڈیننس پاس نہیں ہوتا ہے تو کیجریوال کو ایک غیر معمولی اختیار حاصل ہوگا، جس سے شیلا دیکشت، مدن لال کھرانہ، صاحب سنگھ ورما اور سشما سوراج جیسے سابق وزرائے اعلیٰ کو محروم رہنا پڑا تھا۔‘‘
Published: undefined
مذکورہ بالا دو باتوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد اجئے ماکن نے آرڈیننس کی مخالفت نہ کرنے کے پیچھے موجود انتظامی، سیاسی اور قانونی وجوہات ظاہر کی ہیں۔ ذیل میں پیش ہے اس کی تفصیل
Published: undefined
بنیادی طور سے کوآپریٹو فیڈرلزم کے اصول دہلی کے ضمن میں مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ محض ایک ریاست یا مرکز کے زیر انتظام خطہ نہیں ہے، یہ قومی راجدھانی ہے۔ یہ یونین کے لیے اور اس طرح ہر ہندوستانی شہری کے لیے اہم ہے۔ دہلی کے باشندے ان حالات سے مستفید ہوتے ہیں۔ قومی راجدھانی کی شکل میں مرکزی حکومت یہاں سالانہ مختلف خدمات پر تقریباً 37500 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے، جس مالی بوجھ کو دہلی حکومت کے ذریعہ شیئر نہیں کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
دہلی میں انتظامیہ کے پیچیدہ ایشوز پر غور کرتے ہوئے بابا صاحب امبیڈکر کی قیادت میں تشکیل ایک کمیٹی نے 21 اکتوبر 1947 کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ دہلی کے خاص ضمن میں اس رپورٹ میں کہا گیا کہ: ’’جہاں تک دہلی کا تعلق ہے، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی راجدھانی کو شاید ہی کسی مقامی انتظامیہ کے ماتحت رکھا جا سکتا ہے۔ متحدہ ریاست امریکہ میں کانگریس ’اقتدار کے مرکز‘ کے سلسلے میں خصوصی قانونی اختیارات کا استعمال کرتی ہے، اور آسٹریلیا میں بھی یہی عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں اس سے قبل کی مثالوں سے ہٹنے کی کوئی مناسب وجہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اس لیے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ضمن میں کچھ الگ منصوبہ ممکن ہے۔ اس طرح ہم نے مسودے میں تجویز پیش کی ہے کہ ان مرکزی خطوں کو حکومت ہند کے ذریعہ یا تو چیف کمشنر یا لیفٹیننٹ گورنر یا گورنر یا پڑوسی ریاست کے حاکم کے ذریعہ سے چلایا جا سکتا ہے...۔‘‘
Published: undefined
بابا صاحب کی قیادت میں تشکیل کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد میں پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے دہلی کو ’گورنمنٹ آف پارٹ سی اسٹیٹس ایکٹ، 1951‘ کے ذریعہ سے ایک چیف کمشنر کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کے ماتحت رکھا۔ اس ایکٹ میں دہلی کے لیے ایک خصوصی سہولت شامل تھی: ’’بشرطیکہ ریاست میں دہلی کے وزیر یا کونسل کے ذریعہ نئی دہلی کے سلسلے میں کسی معاملے میں لیا گیا ہر فیصلہ چیف کمشنر کے اتفاق کے ماتحت ہوگا، اور اس ذیلی دفعہ میں کسی بھی معاملے میں چیف کمشنر کے فیصلہ کو روکنے کا کوئی التزام نہیں ہوگا اور نئی دہلی کی انتظامیہ کے سلسلے میں کارروائی کرنے کے لیے ان کے اور وزراء کے درمیان نااتفاقی کی حالت میں وہ ایسی کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہوں گے، جو وہ اپنی دانشمندی کے مطابق ضروری سمجھتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
1956 میں ریاست نوتشکیل کمیٹی (ایس آر سی) کی رپورٹ کا تجزیہ کرنے پر پنڈت نہرو نے موجودہ اسمبلی کو ایک نگر نگم میں بدل دیا، جس سے یہ راجدھانی خطہ قانونی اختیارات سے پاک ہو گیا۔ 1964 میں اور پھر 1965 میں وزیر اعظم کی شکل میں لال بہادر شاستری جی نے بغیر قانونی اختیارات کے کسی التزام کے دہلی کو ایک میٹروپولیٹن کونسل فراہم کیا۔
Published: undefined
1991 میں نرسمہا راؤ جی نے دہلی کے لیے انتظامیہ کی موجودہ شکل کا قیام کیا اور ایل جی کو ’وَرک کنڈکٹ رولس‘ کے ذریعہ سے افسران کو منتقل اور عہدہ پر فائز کرنے کے سبھی اختیارات فراہم کیے۔ اس لیے آزادی کے بعد سے کسی بھی وزیر اعظم نے دہلی کی نومنتخب حکومت کو افسران کو منتقل اور عہدہ پر فائز کرنے کی طاقت فراہم نہیں کی۔
Published: undefined
کیجریوال نے کانگریس پارٹی کی حمایت مانگی ہے، حالانکہ ان کی کچھ گزشتہ سیاسی سرگرمیاں سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔ ان کی پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ ایک تجویز پاس کر مرکزی حکومت سے ہمارے محبوب راجیو جی سے بھارت رتن واپس لینے کی گزارش کی۔
Published: undefined
اس کے علاوہ کیجریوال نے جموں و کشمیر ایشو پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ بی جے پی کی حمایت کی۔ یہ حمایت تب ملی جب جموں و کشمیر کو تقسیم کیا گیا اور اسے ایک مرکز کے زیر انتظام خطہ میں تبدیل کر دیا گیا، جس سے یہاں کے لوگوں کو پانچ سال کے لیے ووٹنگ کے حق سے محروم کر دیا گیا۔
Published: undefined
کیجریوال نے مختلف الزامات پر ہندوستان کے چیف جسٹس (سی جے آئی) دیپک مشرا پر مواخذہ کی تحریک چلانے کے دوران بھی بی جے پی کی حمایت کی۔ جسٹس لویا کی موت سے متعلق مشتبہ حالات کی جانچ کے لیے سی جے آئی نے ایک مفاد عامہ عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
Published: undefined
یہ قابل ذکر ہے کہ کیجریوال متنازعہ کسان مخالف قوانین کو نافذ کرنے والے پہلے شخص تھے۔ ان کی پارٹی نے راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین کے لیے اپوزیشن امیدوار کی بھی مخالفت کی اور اس کی جگہ بی جے پی کے ذریعہ اسپانسرڈ امیدوار کی حمایت کی۔
Published: undefined
گجرات، گوا، ہماچل، آسام، اتراکھنڈ میں بی جے پی کے لیے کیجریوال کی حمایت اور حال کے کرناٹک انتخاب میں، جہاں انھوں نے کانگریس کے خلاف امیدوار کھڑے کیے، اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ صرف انہی ریاستوں میں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں جہاں کانگریس اہم اپوزیشن یا برسراقتدار پارٹی ہے؟
Published: undefined
سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلہ کا پیرا 95 مرکزی حکومت کو قانون میں ترمیم کرنے کی اجازت فراہم کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے ’’حالانکہ اگر پارلیمنٹ این سی ٹی ڈی کے حلقہ اختیار کے اندر کسی بھی موضوع پر ایگزیکٹیو پاور فراہم کرنے والا قانون بناتی ہے، لیفٹیننٹ گورنر کے ایگزیکٹیو پاور کو اس حد تک ترمیم کیا جائے گا، جیسا کہ اس قانون میں التزام کیا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
تینوں وجوہات کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد کانگریس لیڈر اجئے ماکن کا کہنا ہے کہ ’’مذکورہ بالا باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ کیجریوال کی حمایت کرنا اور آرڈیننس کی مخالفت کرنا لازمی طور سے پنڈت نہرو، بابا صاحب امبیڈکر، سردار پٹیل، لال بہادر شاستری اور نرسمہا راؤ کی فطری دانشمندی اور فیصلوں کے خلاف کھڑا ہونے جیسا ہوگا۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں ’’اہم سوال یہ ہے کہ اگر دہلی کے سبھی سابق وزرائے اعلیٰ بغیر کوئی ہنگامہ کیے اپنی ذمہ داری نبھا سکتے تھے، تو کیجریوال اتنی بدنظمی کیوں پھیلا رہے ہیں؟ کیا یہ محض سیاسی ڈرامہ بازی ہے؟ بدقسمتی سے اس بدامنی کا خمیازہ دہلی کے باشندے بھگت رہے ہیں۔ اس بدامن ماحول میں سب سے زیادہ نقصان دہلی کو ہوا ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز