قومی خبریں

دہلی کوچنگ حادثہ: پولیس کو تجاوزات ہٹانے اور کل تک رپورٹ پیش کرنے کی سخت ہدایت

دہلی کوچنگ حادثے پر ہائی کورٹ نے سخت تبصرہ کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کیا غیر قانونی تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں پولیس کے علم کے بغیر ہوتی ہیں؟

دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی
دہلی ہائی کورٹ، تصویر یو این آئی 

نئی دہلی: دہلی کے اولڈ راجندر نگر کوچنگ حادثے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر آج (بدھ 31 جولائی) دہلی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران ہائی کورٹ نے سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی دوسرے کے کورٹ میں گیند ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا پولیس ایم سی ڈی عہدیداروں کے کردار کی تحقیقات کر رہی ہے؟

ہائی کورٹ نے کہا، ’’دہلی پولیس اس معاملے میں کل رپورٹ داخل کرے۔ سماعت کے دوران ایم سی ڈی کمشنر کو بھی ذاتی طور پر حاضر ہوں۔ پولیس کے تفتیشی افسر اور ڈی سی پی کو بھی عدالت میں پیش ہوں۔ ڈرین سسٹم پر جو بھی تجاوزات ہیں انہیں ہٹایا جائے۔ ایم سی ڈی کے اعلیٰ عہدیدار خود میدان میں جائیں تو کچھ تبدیلی آئے گی۔‘‘

Published: undefined

جج نے کہا، ’’یہ بیسمنٹ کس طرح بنے؟ ان کی اجازت کس انجینئر نے دی؟ ان سے پانی نکالنے کے کیا انتظامات کئے گئے؟ کیا یہ سب ذمہ دار لوگ بچ جائیں گے؟ اس کی تحقیقات کون کرے گا؟ کیا کوئی ایم سی ڈی افسر جیل گیا ہے؟ کار سے سفر کر رہے ایک شخص کو پکڑ لیا گیا، اس طرح ذمہ داری کا تعین کیا جا رہا ہے! اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں، اب سماعت جمعہ کو دوپہر 2.30 بجے ہوگی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم جنگل میں رہ رہے ہیں۔ قوانین کے مطابق غیر قانونی تعمیرات یا حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی پر ایم سی ڈی اور دیگر محکموں کو کارروائی کرنی چاہیے۔ کیا انہیں کہیں کوئی بے ضابطگی نظر نہیں آتی؟

Published: undefined

وکیل نے کہا، ’’ایک طالب علم نے راجندر نگر کے بیسمنٹ میں چلنے والے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں شکایت کی تھی۔ دو بار یاد دہانیاں بھی بھیجی گئیں لیکن شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘

وکیل نے کہا کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ شکایت پر کیا کارروائی ہوئی؟ کیا شکایت کی تحقیقات کے لیے کوئی افسر مقرر کیا گیا تھا؟ عدالت کو دہلی کے ہر ضلع میں غیر قانونی تعمیرات کی تحقیقات کے لیے ضلع سطح کی کمیٹیاں بھی تشکیل دینی چاہیے۔

ایک اور وکیل نے کہا، “کچھ دن پہلے ایک طالب علم کی موت بجلی کا جھٹکا لگنے سے ہوئی تھی۔ مسلسل غفلت ہے۔ ہر کوئی کرپشن کے ذریعے پیسہ کما رہا ہے۔ ایم سی ڈی جان بوجھ کر حفاظتی اصولوں کو نظر انداز کر رہی ہے، وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے۔ اسے دہلی کے ہر ضلع تک پھیلانا چاہیے۔ غیر قانونی پی جی چل رہے ہیں۔ ایک عمارت میں 50-60 طلبہ رہ رہے ہیں۔ ایم سی ڈی کے لوگ ہر علاقے کے لیے مقرر ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ تعمیر کے دوران ہر قرض دینے والے سے ریکوری کی جاتی ہے۔

Published: undefined

دہلی حکومت کے وکیل نے کہا، ’’قواعد اپنی جگہ پر ہیں۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمارت کی بنیاد پر کوچنگ کی اجازت ہے۔ آگ کی حفاظت کے لیے معائنہ کیا جاتا ہے۔ ہم کوچنگ اداروں کے خلاف مسلسل کارروائی کر رہے ہیں۔ 75 کو نوٹس 35 بند، 25 سیل۔ کچھ دوسرے مقامات پر شفٹ ہو گئے۔'' اس پر درخواست گزار نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد اب کارروائی کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے۔ پہلے کچھ نہیں کیا۔

دہلی حکومت نے اس پر کہا کہ کئی انکوائری کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ مزید معلومات ان کی رپورٹ سے دستیاب ہوں گی۔ یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ایسے واقعات افسوسناک ہیں۔

Published: undefined

اس کے بعد جج نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے سہولیات کے بنیادی ڈھانچے کو تیار کیے بغیر بلڈنگ بائی لاز میں نرمی کی۔ کئی منزلیں تو بنتی ہیں لیکن جو سہولتیں حکومت کو فراہم کرنی تھی وہ فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ ایم سی ڈی کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس سے عوام کو کیا سہولت ملے گی؟

جج نے کہا، "100 سال پرانا انفراسٹرکچر ہے، جسے بغیر کسی ترقی کے بنانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ پولیس کیا تفتیش کر رہی ہے؟ ابھی تک کون پکڑا گیا ہے؟ کیا غیر قانونی تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں خود پولیس کے علم کے بغیر ہوتی ہیں؟ ہر کوئی گیند کو دوسرے شخص کے کورٹ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا پولیس ایم سی ڈی عہدیداروں کے کردار کی تحقیقات کر رہی ہے؟ وہاں اتنا پانی کیسے جمع ہو گیا؟‘‘

Published: undefined

جج نے پوچھا کہ کیا پولیس ایم سی ڈی حکام کے کردار کی تحقیقات کر رہی ہے؟ وہاں اتنا پانی کیسے جمع ہو گیا؟ اس کے بعد وکیل نے کہا کہ آپ گھر پر اینٹ رکھ دیں، ایم سی ڈی والے فوراً آئیں گے، لیکن ان کے آنے کا مقصد ریکوری ہے۔ انہیں غیر قانونی تعمیرات روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس منموہن نے کہا کہ حکومت پہلے سہولت تیار کرے پھر تعمیر کی اجازت دے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ صرف لامحدود تعمیرات جاری ہیں۔ بلڈنگ بائی لاز میں نرمی کی گئی ہے۔

جج نے کہا کہ سڑک پر سے گزرنے والا شخص بھی پکڑا گیا، لیکن کیا ایم سی ڈی کے سینئر افسران کا کوئی کردار نہیں؟ بس کچھ جونیئر لوگوں کو معطل کیا، بس۔ بڑے افسران اپنے اے سی کمروں سے بھی باہر نہیں آ رہے ہیں۔

Published: undefined

جسٹس نے کہا کہ حکومت کو کچھ معلوم نہیں۔ اس کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ایک دن وہ خشک سالی کی شکایت کرتے ہیں، دوسرے دن سیلاب آتا ہے۔ آپ کو اپنے مفت منصوبوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے جو 6-7 لاکھ لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا، اب یہ 3 کروڑ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کی ترقی نہیں ہے۔

جسٹس نے کہا کہ نالے کی جگہ پوری مارکیٹ بن گئی ہے۔ حکومت اور ایم سی ڈی یہ جانتے ہیں، لیکن اس پر بات بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اگر نالہ ٹوٹ گیا ہے تو اسے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ہر چیز کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ خود ایم سی ڈی کو اندازہ نہیں ہے کہ اسے کیسے بہتر کیا جائے۔ جب پانی آتا ہے تو وہ انتظار نہیں کرتا۔ کسی کو ذمہ داری لینا ہوگی۔ ہم ایم سی ڈی کمشنر کو خود اس علاقے میں جانے کی ہدایت دیتے ہیں۔ اگر پولیس مناسب تحقیقات نہیں کرتی ہے تو ہم کیس سی بی آئی کو سونپ دیں گے۔ دہلی میں ایم سی ڈی ہے، جل بورڈ ہے، پی ڈبلیو ڈی ہے، کس ی ذمہ داری کیا ہے معلوم ہی نہیں چلتا۔ شاید ہمیں مرکزی وزارت داخل سے غور کرنے کو کہنا ہوگا کہ دہلی کا نظام کس طرح چلے گا!

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined