قومی خبریں

بھگوا پرچم مہم: دہلی میں بی جے پی کونسلر نے ہندو دکانداروں کے یہاں لگائے بھگوا جھنڈے

مسلم دکانداروں سے بھگوا جھنڈا کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری دکانوں پر مسلم سے زیادہ ہندو آتے ہیں۔ صرف کچھ ہی لوگ ہیں جو آتے ہیں تو نام اور مذہب پوچھتے ہیں اور سامان نہیں خریدتے ہیں۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر 

نیم پیلٹ، بنٹو گے تو کٹو گے جیسے تنازعات کے بعد اب راجدھانی دہلی میں ایک نیا تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ دراصل پھل اور سبزی فروخت کرنے والوں کی دکانوں پر ’بھگوا پرچم مہم‘ کے تحت جھنڈے لگائے جا رہے ہیں۔ مشرقی دہلی کے مغربی ونود نگر سے بی جے پی کونسلر رویندر نیگی نے علاقہ میں یہ مہم چلائی ہے۔ اس مہم کے تحت سڑک کے کنارے ریہڑی پر سبزی، پھل اور کھانے پینے کا سامان فروخت کرنے والے دکانداروں کے مذہب کی پہچان کے لیے بھگوا جھنڈے لگائے جا رہے ہیں۔

Published: undefined

خبر رساں ایجنسی ’ٹی وی9 بھارت ورش‘ کے مطابق جب رویندر نیگی سے بھگوا جھنڈے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’کئی روز سے لوگوں کی شکایت تھی کہ کچھ مخصوص کمیونٹی کے لوگ اپنا نام اور پہچان بدل کر کھانے پینے کا سامان فروخت کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’آئے دن کھانے پینے کے سامان پر تھوکنے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ لوگوں کو گندے پانی میں دھو کر سبزیاں اور پھل فروخت کیے جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس بات کی بھی جانکاری دی کہ اس کے متعلق پولیس کو بھی شکایت کی گئی ہے۔ میرا مقصد بس یہ ہے کہ لوگوں کو علم ہو سکے کہ کون دکان کس کا ہے۔ ہم صرف ہندوؤں کے دکانوں پر بھگوا جھنڈا لگا رہے ہیں۔

Published: undefined

کونسلر رویندر نیگی سے جب سوال کیا گیا کہ بھگوا جھنڈا لگانے کی مہم تو اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ آپ بانٹنے کی سیاست کر رہے ہیں، تو انہوں جواب میں کہا کہ وہ کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن سامان خریدنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دکان کس کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اویسی اپنے مذہب کو لے کر متشدد ہو سکتے ہیں تو باقی لوگ کیوں نہیں؟

Published: undefined

جن دکانوں پر کونسلر کے ذریعہ جھنڈا لگایا گیا، جب ان سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تقریباً 15 سالوں سے یہاں دکان لگا رہے ہیں۔ کونسلر نے کہا ہے کہ بیداری کے لیے دکانوں پر جھنڈا لگایا گیا ہے۔ دوسری جانب مسلم دکانداروں سے بھگوا جھنڈا کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری دکانوں پر مسلم سے زیادہ ہندو آتے ہیں۔ صرف کچھ ہی لوگ ہیں جو آتے ہیں تو نام اور مذہب پوچھتے ہیں اور سامان نہیں خریدتے ہیں۔ مسلم دکانداروں نے یہ بھی کہا کہ ان سب سے ان کی دکانداری پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined