کنّور یونیورسٹی (کیرالہ) نے وی ڈی ساورکر اور ایم ایس گولولکر کے نظریات اور ان کے کاموں کو اپنے نصاب سے ہٹانے کا اعلان کر دیا ہے۔ کافی تنازعہ کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہے اور اب جلد ہی پوسٹ گریجویٹ کے گورننس اینڈ پالیٹکس نصاب میں شامل ساورکر اور گولولکر سے متعلق مواد کو ہٹا دیا جائے گا۔ جب سے ان دو ناموں کو نصاب میں شامل کیا گیا تھا، کیرالہ میں اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس نے سخت اعتراض ظاہر کیا تھا اور ریاستی حکومت پر تعلیم کی بھگواری کا الزام عائد کیا تھا۔
Published: 17 Sep 2021, 3:40 PM IST
کانگریس نے برسراقتدار سی پی آئی (ایم) پر ریاست میں تعلیم کی بھگواکاری کے لیے سہولت مہیا کرنے اور غلط نظریات کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے ریاست کی سی پی آئی (ایم) حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ فوری طور پر ساورکر، گولوالکر، دین دیال اپادھیائے وغیرہ کے کاموں کو یونیورسٹی کے نصاب سے ہٹایا جائے۔ حالانکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر گوپی ناتھ رویندرن نے ساورکر اور گوالکر جیسے لوگوں کو نصاب میں شامل کیے جانے کا دفاع کیا تھا۔ بعد ازاں خود وزیر اعلیٰ پینارائی وجین نے اس عمل کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے مخالفت میں بیان دیا تھا۔
Published: 17 Sep 2021, 3:40 PM IST
اس تنازعہ کے درمیان 16 ستمبر کو کنّور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر گوپی ناتھ رویندر نے کہا کہ ’جدید ہندوستانی سیاسی نظریات پر بحث‘، جس میں ساورکر اور گولولکر کے ذریعہ کیے گئے کام اور ان کے نظریات شامل ہیں، نصاب کے تیسرے سیمسٹر سے ہٹا دیے جائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ضروری تبدیلی کے بعد اس پیپر کو چوتھے سیمسٹر میں شامل کیا جائے گا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق آئندہ 29 ستمبر کو اسکول کے اکیڈمک کونسل کی میٹنگ ہونے والی ہے جس میں اس تعلق سے آخری فیصلہ لیا جائے گا۔
Published: 17 Sep 2021, 3:40 PM IST
بہر حال، کنّور یونیورسٹی کے ذریعہ نصاب سے ساورکر اور گولولکر کے کاموں کو نکالے جانے کے فیصلہ کو بی جے پی نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بی جے پی نے اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی کا فیصلہ کیرالہ میں سی پی آئی (ایم) اور کانگریس کے آپسی گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ کیرالہ بی جے پی صدر کے. سریندرن کا کہنا ہے کہ ’’یہ حیرت انگیز ہے، کانگریس کے مطالبہ کے بعد سی پی آئی (ایم) ملک کے قومی لیڈرس کے کاموں کی جانکاری اپنے نصاب سے ہٹا دیتی ہے۔‘‘
Published: 17 Sep 2021, 3:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Sep 2021, 3:40 PM IST
تصویر: پریس ریلیز