اتر پردیش میں بجلی کاری اور نجکاری کے خلاف ہزاروں ملازمین کے ہڑتال پر چلے جانے کے بعد مشکل حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں اتر پردیش تاریکی میں ڈوب رہا ہے، شہری لوگ پانی کے لیے اور دیہی لوگ روشنی کے لیے ترس رہے ہیں، وہیں دوسری طرف حکومت کے نمائندوں نے اپنا سخت رویہ برقرار رکھا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ مہوبا سے لے کر مظفرنگر تک بجلی ملازمین کے خلاف سرکاری شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ ہڑتال پر بیٹھے ملازمین کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور گرفتاری بھی کی جا رہی ہے۔ اتر پردیش کے وزیر توانائی اے کے شرما کھلے عام تنبیہ دے رہے ہیں کہ وہ سرکار کی منشا کے خلاف جانے والے ملازمین کے خلاف بے حد سخت کارروائی کریں گے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ وہ بجلی کی فراہمی میں رخنہ اندازی پیدا کرنے والے بجلی ملازمین کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے۔
Published: undefined
اس کے برعکس بجلی ملازمین 'تو ڈال ڈال، میں پات پات' والی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بجلی اہلکار لائن کاٹ دیتے ہیں اور اس کے بعد فون بند کر لیتے ہیں۔ اس لڑائی میں عوام پستی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بجلی ملازمین کی یہ ہڑتال 72 گھنٹوں کے لیے بلائی گئی ہے۔ الیکٹرسٹی ڈیپارٹمنٹ ایمپلائی آرگنائزیشن کے مطابق وہ اس ہڑتال کو مزید آگے بڑھانے جا رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلہ کا اندازہ لگا چکی ہے اس لیے اس نے ملازمین کی تحریک کو کچلنے کا ارادہ بنا لیا ہے۔ موصولہ اعداد و شمار کے مطابق بجلی ملازمین سنیوکت سنگھرش سمیتی کا دعویٰ ہے کہ 1030 میگاواٹ صلاحیت کے 5 یونٹ اس وقت کام نہیں کر رہے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ مغربی اتر پردیش، مظفرنگر، میرٹھ، سہارنپور، بجنور، شاملی، باغپت میں گھروں میں پانی کی قلت ہو رہی ہے۔ بجلی ملازمین کے ساتھ کانٹریکٹ والے ملازمین بھی جڑ گئے ہیں۔ مغربی اتر پردیش میں 72 گھنٹے کی مستقل ہڑتال کے بعد یہاں کئی اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں بجلی گھروں میں بجلی متاثر ہوئی ہے۔ مظفرنگر میں 50 سے زیادہ، بجنور میں 65، میرٹھ میں 70 اور سہارنپور میں 55 بجلی گھروں میں بجلی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ مظفرنگر میں دیر رات شہری آبادی پوری طرح سے تاریکی میں رہی۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس وقت بچوں کا امتحان چل رہا ہے۔ ایسے میں انھیں موم بتی کے دور میں لوٹنے کو مجبور ہونا پڑا ہے۔
Published: undefined
بجلی ملازمین کی ہڑتال سے صنعتیں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ گاؤں تک میں بجلی کی سپلائی نہیں کی جا رہی ہے۔ تنہا شاملی کے 50 گاؤں میں بجلی کی فراہمی نہیں ہو رہی ہے۔ سہارنپور میں 100 سے زیادہ گاؤں میں بجلی نہیں پہنچ رہی اور مظفرنگر، بجنور، مراد آباد، امروہہ و میرٹھ میں بھی کچھ یہی حال ہے۔ ہڑتال کے دوران بجلی فراہمی متاثر نہ ہو، اس مقصد سے بجلی گھروں پر پولیس کی تعیناتی کی جا رہی ہے، لیکن بجلی ملازمین کچھ ایسا فالٹ کر دیتے ہیں کہ اسے ٹھیک کرنے میں پریشانی آتی ہے اور نتیجتاً بجلی فراہمی ٹھپ ہو جاتی ہے۔ حکومت اور بجلی ملازمین کے درمیان ایک طرح کی آنکھ مچولی چل رہی ہے۔
Published: undefined
اس دوران اتر پردیش کے وزیر توانائی اے کے شرما نے بجلی ملازمین سے بات چیت کرنے کی بات کہی ہے، جبکہ سنگھرش سمیتی کے کنوینر شیلندر دوبے نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بات تو کر لیں گے لیکن کسی بھی حالت میں نجکاری پر متفق نہیں ہوں گے۔
Published: undefined
ہڑتال کا اثر ایسا ہے کہ تنہا مظفرنگر میں 100 سے زیادہ فیکٹریاں بند رہیں۔ آئی اے ای اے چیئرمین وپل بھٹناگر کے مطابق بجلی کی فراہمی ٹھپ ہونے سے مظفرنگر میں دو کروڑ کا پروڈکشن متاثر ہوا ہے۔ صرف مظفرنگر ضلع کے 1500 ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ آس پاس کے ضلعوں میں کم و بیش یہی حالت ہے۔ مظفرنگر میں نمائش بجلی گھر پر ڈٹے ملازمین مکیش، انکت اور سچن کا کہنا ہے کہ حکومت ہماری تکلیف کو سمجھے بغیر ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے مسائل کو سمجھنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ سنگھرش سمیتی کے جگروشن کا کہنا ہے کہ حکومت اپنا فیصلہ تھوپنے کا کام کر رہی ہے۔ ہمارے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، ملازمین کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ مہوبا، کانپور، وارانسی سے لے کر شاملی، باغپت اور بجنور تک ایک جیسے حالات ہیں۔ اگر یہ لڑائی ہے تو ہم نے بھی لی انگڑائی ہے۔
Published: undefined
بجلی ملازمین اور حکومت کے درمیان نجکاری کو لے کر جاری اس لڑائی میں عوام کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ مظفرنگر کے گاندھی کالونی میں رہنے والے ونیت شرما کا کہنا ہے کہ 23 گھنٹے بعد بجلی آئی تو پہلی فرصت میں پانی بھرا، کیونکہ پوری فیملی پانی نہ ہونے سے پریشان تھی۔ جانسٹھ کے عباس نقوی کا کہنا تھا کہ ان کا انورٹر ڈاؤن ہو گیا اور بجلی 20 گھنٹے سے زیادہ وقت تک نہیں آئی۔ انھوں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ لائن میں فالٹ ہو گیا ہے۔ بیسیوں فون کیے مگر فالٹ ٹھیک نہیں ہوا۔ بتایا گیا کہ وہ ہڑتال پر ہیں کیونکہ حکومت ان کی ملازمت پر بحران ڈال رہی ہے۔ حکومت اور بجلی ملازمین کے درمیان ہم ناحق پستے جا رہے ہیں۔ بچوں کی پڑھائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ تاریکی کے سبب مجرمانہ واقعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز