ہاتھرس کا واقعہ مجبور کرتا ہے کہ دلتوں کے خلاف اتر پردیش میں ہو رہے مظالم کی جڑ میں جائیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اس کی وجہ کتنی سماجی، کتنی سیاسی اور کتنی فطری ہے۔ اس کے لیے دلتوں کے خلاف تشدد کی جڑوں تک جانا ضروری ہے۔
Published: undefined
اتر پردیش میں دلتوں کے خلاف تشدد کی شرح قومی شرح سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اور یہی بات 2019 کی این سی آر بی کی رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یوگی راج میں بھی اسی رخ کے برقرار رہنے سے یو پی کے موجودہ نظام حکومت پر سوال لازمی طور پر اٹھیں گے۔ یو پی میں حکومت کسی کی بھی رہی ہو، دلتوں کے خلاف مظالم اور تشدد کے معاملوں کے بدستور جاری رہنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ یو پی کا سماجی، سیاسی اور معاشی ماحول جاگیردارانہ رہا ہے۔ اس ماحول میں جیسے جمہوریت ریاست میں داخل ہی نہیں ہو سکی۔ اسی لیے ریاست کا انتظامی ڈھانچہ بھی فطری طور پر جاگیردارانہ ہی ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب آزادی کے بعد تقری کے لیے سرمایہ کاری کے عمل نے ایک نئے طرح کے مافیہ کو جنم دیا، جس نے جاگیردارانہ قوتوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے سیاسی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ یہ ایک جانی ہوئی بات ہے کہ چاہے پارٹی کوئی بھی ہو، عموماً جاگیردارانہ روش کو پالنے پوسنے والے، مافیا اور پیسے کی طاقت حاوی رہی اور اس حالت میں رہی کہ اپنے حساب سے پارٹی کو ڈھال سکے، منمانی کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار تبدیلی کے بعد بھی ان کا سیاسی رسوخ کم نہیں ہو سکا۔
Published: undefined
اتر پردیش میں دلتوں، خواتین اور سماج کے دیگر کمزور طبقات کے خلاف لگاتار ہو رہے مظالم کے لیے خصوصاً یہی اسباب ذمہ دار ہیں۔ ریاست کی ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ جاگیرداری، مافیا اور پیسہ کے گٹھ جوڑ کے خلاف زمینی سطح پر بہار کی طرز پر کوئی بڑی تحریک کھڑی نہیں ہو سکی۔ بہار میں نکسل اور کسان تحریک نے اس گٹھ جوڑ کے خلاف آواز بلند کی۔ ایک اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یو پی کی دلت سیاست نے بھی انہی طاقتوں کی مدد سے اقتدار کا استعمال کیا جس کی وجہ سے اس گٹھ جوڑ کی جڑیں مضبوط رہیں۔
Published: undefined
اب بات کرتے ہیں یوگی آدتیہ ناتھ کے بی جے پی راج میں دلت مخالف اس خطرناک گٹھ جوڑ کے پھلنے پھولنے کی۔ بی جے پی کی تاناشاہی روش والے اقتدار میں جاگیردارانہ قوتوں، مافیا اور پیسے کی طاقت پر مبنی یہ دلت مخالف گٹھ جوڑ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ بایاں محاذ جمہوری طاقتیں ہی کر سکتی ہیں نہ کہ کوئی دیگر پارٹی یا پھر دلتوں کی سیاست کرنے والی بھیم آرمی یا پھر بہوجن سماج پارٹی جو اقتدار کی سیاست میں ہی مصروف رہتی ہیں۔
(یہ مضمون ہندی نیوز پورٹل 'نوجیون' کے لیے سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری نے لکھا۔ مضمون نگار حقوق انسانی کے لیے کام کرتے ہیں اور آل انڈیا پیپلز فرنٹ کے قومی ترجمان ہیں۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined