کانگریس ورکنگ کمیٹی نے حیدر آباد میں ہفتہ کو شروع ہوئی اپنی دو روزہ میٹنگ کے پہلے دن 14 نکاتی قرارداد پاس کیا ہے۔ اس قرارداد کی شروعات جموں و کشمیر میں دہشت گردوں سے تصادم کے دوران شہیدوں ہوئے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے سے ہوئی۔ بعد ازاں بطور کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کے ایک سال کی کارگزاریوں اور راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی تعریف کی گئی۔ قرارداد میں اپوزیشن اتحاد انڈیا کے اس عزم کو بھی دہرایا گیا کہ اس پیش قدمی کو نظریاتی اور انتخابی شکل میں کامیاب بنانے کے لیے کانگریس ملک کو توڑنے والی اور پولرائزیشن کی سیاست سے پاک کرنے، سماجی برابری اور انصاف میں یقین رکھنے والی طاقتوں کو مضبوط کرنے اور لوگوں کو ایک ذمہ دار، حساس، شفاف، جوابدہ اور ذمہ دار مرکزی حکومت دینے کے لیے متحد ہے۔ نیچے پیش ہیں 14 نکاتی قرارداد کے اہم حصے:
سب سے پہلے کانگریس ورکنگ کمیٹی جموں و کشمیر میں شہید ہوئے ہمارے بہادر فوجی افسران اور فوجی اہلکاروں کے کنبوں کے تئیں گہری ہمدردی ظاہر کرتی ہے۔ جب یہ افسوسناک خبر سامنے آ رہی تھی اور ملک غم منا رہا تھا تب بی جے پی اور وزیر اعظم کے ذریعہ خود کو جی-20 کی مبارکباد دینے کے لیے قومی راجدھانی میں جشن منانا نہ صرف بے شرمی کا عروج ہے بلکہ جوانوں کی شہادت کی بے عزتی بھی ہے۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی گزشتہ ایک سال میں کانگریس صدر کی شکل میں اہم کارگزاریوں کے لیے ملکارجن کھڑگے جی کی تعریف کرتی ہے۔ وہ ایک قابل ترغیب لیڈر کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف اور خود مختاری کی مضبوط آواز رہے ہیں۔ وہ بے خوفی کے ساتھ مودی حکومت کے حملوں سے آئین کو بچانے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ لگاتار وزیر اعظم کو ان کی عوام مخالف پالیسیوں اور پروگراموں کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) راہل گاندھی کی قیادت میں کنیاکماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا کی پہلی سالگرہ پر خوشی ظاہر کرتی ہے۔ یاترا ملک کی سیاست میں ایک انقلابی واقعہ تھا۔ جس کا مقصد ہندوستان کو توڑنے والی طاقتوں کے خلاف لوگوں کو متحد کرنا، بڑھتی نابرابری، گھٹتی آمدنی، بڑھتی بے روزگاری اور ضروری چیزوں کی آسمان چھوتی قیمتوں کے خلاف لوگوں کی آواز اٹھانا، اور بڑھتی تاناشاہی، جمہوری اداروں پر قبضے اور ہمارے وفاقی ڈھانچے پر ہو رہے حملوں کی مخالفت کرنا تھا۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی منی پور میں آئینی نظام کے پوری طرح سے منہدم ہونے اور وہاں جاری تشدد پر گہرا افسوس ظاہر کرتی ہے۔ چار ماہ سے زیادہ وقت سے ریاست میں تشدد اور بدامنی کا دور جاری ہے۔ اتنے دنوں میں بی جے پی کی پولرائزیشن کی پالیسیوں کی وجہ سے ریاست بری طرح سے تقسیم ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم کی خاموشی اور نظر اندازی، وزیر داخلہ کی ناکامی اور وزیر اعلیٰ کے ضدی رویہ نے بے حد ہی خطرناک حالت پیدا کر دی ہے۔ جہاں سیکورٹی فورسز اور شہریوں کے درمیان اور فوج/آسام رائفلز اور ریاستی پولیس کے درمیان بار بار تصادم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ منی پور سے جو چنگاری نکلی ہے، اب اس کے بڑے پیمانے پر شمال مشرقی علاقوں میں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ سی ڈبلیو سی وزیر اعلیٰ کو فوراً ہٹانے اور صدر راج لگانے کی کانگریس پارٹی کے مطالبہ کو دہراتی ہے۔ سی ڈبلیو سی اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ حکومت لوٹے گئے اسلحوں اور گولہ بارود کو برآمد کرنے، پبلک آرڈر بحال کرنے، ہزاروں متاثرین اور ریاست کے پناہ گزینوں کے لیے اس بے حد سنگین انسانی بحران کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی مختلف گروپوں کے درمیان بات چیت کے لیے ایک خاکہ تیار ہو۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی یاد دلانا چاہتی ہے کہ لال قلعہ کی فصیل سے یومِ آزادی کے موقع پر اپنی پہلی تقریر میں وزیر اعظم نے نسل پرستی، فرقہ پرستی اور علاقائیت پر 10 سال کے لیے روک لگانے کا عزم ظاہر کیا تھا، افسوس یہ ہے کہ بی جے پی اور اس حکومت کے ذریعہ اپنائی گئی تخریب کاری اور تفریق سے بھری پالیسیوں اور وزیر اعظم کے ذریعہ لوگوں کو متحد کرنے کی جگہ چنندہ معاملوں پر اپنی خاموشی کی وجہ سے گزشتہ 9 سالوں میں یہ تینوں ہی مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ ان کی حکومت نے غریبوں اور کمزور لوگوں، خصوصاً خواتین، اقلیتوں، دلتوں اور قبائلیوں پر مظالم کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بی جے پی لیڈروں کی سیاسی تقریر سماج میں زہر گھولنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے بیان نفرت پھیلانے والے اور تشدد کو فروغ دینے والے ہوتے ہیں۔ وہ تخریب کار قوتوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور سماج کا پولرائزیشن کرتے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈروں اور ترجمانوں نے گزشتہ وزرائے اعظموں، خصوصاً جواہر لال نہرو کے تعاون کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ان کی شبیہ کو بھی خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی لیڈروں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف سیاسی بدلہ کے لیے جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی مودی حکومت کو ایم ایس پی اور دیگر مطالبات کے ایشوز پر کسانوں اور کسان تنظیموں سے کیے گئے وعدوں کی یاد دلاتی ہے۔ کسان بڑھتے قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ زراعت اور دیہی معیشت گہرے بحران میں ہے۔ نوٹ بندی کی مار اور حکومت سے کسی بھی طرح کی حمایت نہ ملنے کے سبب ایم ایس ایم ای سب سے خراب دور میں ہیں۔ ایکسپورٹ مارکیٹ سکڑ گیا ہے اور ایکسپورٹ میں گراوٹ آئی ہے۔ سرمایہ کاری اور صارفیت کا انجن سست پڑا ہوا ہے۔ حکومت متعیشت کو از سر نو زندہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ معاشی منظرنامہ مایوس کن بنا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس حکومت کی واحد فکر صرف ہیڈلائن مینجمنٹ ہے۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی بڑھتی بے روزگاری اور خاص طور سے ضروری سامانوں کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ پر سنگین فکر ظاہر کرتی ہے۔ وعدے کے مطابق ہر سال دو کروڑ ملازمت دینے میں ناکام رہنے کے بعد وزیر اعظم کا نام نہاد روزگار میلہ تماشہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ پورا عمل صرف اور صرف دھوکہ ہے۔ 2021 میں ہونے والے دس سالہ مردم شماری کروانے میں ناکام ہونا شرم کی بات ہے۔ اس کے سبب اندازاً 14 کروڑ ہندوستانیوں کو اپنے کھانے کے حق سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ 2011 کی مردم شماری کے حساب سے جاری راشن کارڈ پر ہی ابھی لوگ راشن لے پا رہے ہیں۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی نئے آئین کے لیے شروع کی گئی بحث اور بدنیتی سے بھرے دلائل کو سرے سے خارج کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے بنیادی ڈھانچہ کو بدلا جا سکتا ہے۔ بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کے ساتھ کے دیگر حب الوطنوں کے ذریعہ تیرا کیے گئے آئین پر بی جے پی حکومت کے حملے کی سبھی جمہوری طاقتوں کے ذریعہ مذمت کی جانی چاہیے اور مخالفت کی جانی چاہیے۔ ہمارا آئین مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں ہماری تحریک آزادی کے اصولوں کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر اعظم ایک طرف دنیا کو مہاتما گاندھی کا نام لے کر تقریر کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کرنے والوں اور ان کی وراثت پر حملہ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔
اس حکومت کے آنے کے بعد سے پارلیمانی بحث اور جانچ تقریباً غائب ہی ہو گئی ہے۔ کئی اہم اور دور رَس قانون کو مناسب جانچ اور بحث کے بغیر جلدبازی میں آگے بڑھا دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں پیش کردہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنر (تقرری وغیرہ) بل آزاد و غیر جانبدار انتخاب کرانے کے لیے انتخابی کمیشن کی آزادی سے سنگین سمجھوتہ کرنے والا ہے۔ حکومت اچانک پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا لیتی ہے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی صدر سونیا گاندھی جی نے وزیر اعظم کو خط لکھ رک عوامی فکر اور اہمیت سے جڑے 9 سنگین ایشوز اٹھائے، جن پر اس خصوصی اجلاس میں بحث کی ضرورت ہے۔ سی ڈبلیو سی اس پہل کے لیے اور پارٹی تنظیم کو مضبوط کرنے میں ان کی مستقل دلچسپی کے لیے انھیں شکریہ کہتی ہے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی خاتون ریزرویشن بل کو پارلیمنٹ کے اس خصوصی اجلاس میں پاس کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
سی ڈبلیو سی اڈانی بزنس گروپ کے لین دین پر اب تک ہوئے اور اب بھی لگاتار ہو رہے سنگین اور حیران کرنے والے انکشافات کی جانچ کے لیے جے پی سی کے مطالبہ کو دہراتی ہے۔ کیونکہ اڈانی گروپ وزیر اعظم کی قریبی دوستی اور حکومت کی تعصب والی پالیسیوں اور ایڈمنسٹریٹو نرم روی کا اہم استفادہ کنندہ رہا ہے۔
’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ کی تجویز ملک کے وفاقی ڈھانچے پر ایک اور حملہ ہے۔ مودی حکومت نے ریاستوں کے ٹیکس ریونیو حصہ داری میں کمی کر کے، گورنر کے دفتروں کا غلط استعمال کر کے، اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعہ حکمراں ریاستوں میں منصوبوں اور پروگراموں کو نافذ کرنے میں رخنات پیدا کر کے (جیسا کہ کرناتک میں فوڈ سیکورٹی گارنٹی کے معاملے میں ہوا) منصوبہ بند طریقے سے وفاقیت کو کمزور کر دیا ہے۔ مرکز نے اپوزیشن کے ذریعہ حکمراں ریاستوں کو ایمرجنسی فنڈ اور ڈیزاسٹر فنڈ دینے سے بھی انکار کیا ہے۔ ہماچل اس کی تازہ مثال ہے، جہاں سیلاب اور لینڈ سلائڈنگ سے کافی نقصان پہنچا ہے۔
سی ڈبلیو سی واضح الفاظ میں چین کے ذریعہ ہندوستانی علاقہ میں دراندازی اور نقشہ میں اروناچل پردیش اور ہندوستان کے دیگر حصے کو شامل کرنے جیسی اس کی اکساوے کی پالیسی کی مذمت کرتی ہے۔ یہ بے حد افسوسناک ہے کہ 19 جون 2020 کو چین کو کلین چٹ دے کر اور ہندوستانی علاقہ پر قبضے کی بات سے انکار کر کے وزیر اعظم نے ملک کو گمراہ کیا۔ ان کا وہ بیان نہ صرف ہمارے جوانوں کی شہادت کی بے عزتی ہے بلکہ اس سے چین کو سرحد کی خلاف ورزی جاری رکھنے کے لیے بھی ترغیب ملی ہے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی حکومت سے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ پر حالات واضح کرنے اور ہندوستانی علاقہ کی سالمیت یقینی کرنے کے لیے کسی بھی چیلنج کے خلاف مضبوط رخ اپنانے کی اپیل کرتی ہے۔
کانگریس ورکنگ کمیٹی فرقہ وارانہ اتحاد، سماجی، معاشی برابری، نوجوانوں کی امیدوں اور ایک مضبوط ہندوستان کے فخریہ سفر میں ملکی باشندوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔ ورکنگ کمیٹی یہ عزم کرتی ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کی تعمیر کرے گی جس میں ہر ذات و مذہب کے لوگ، امیر و غریب، نوجوان و بزرگ سب فخر محسوس کریں۔
آخر میں کانگریس ورکنگ کمیٹی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) کے مستقل اتحاد کا تہہ دل سے استقبال کرتی ہے۔ اس سے وزیر اعظم اور بی جے پی لیڈران کافی بوکھلائے ہوئے ہیں۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی انڈیا اتحاد کی پہل کو نظریاتی اور انتخابی طور سے کامیاب بنانے کے لیے کانگریس پارٹی کے عزم کو دہراتی ہے تاکہ ہمارا ملک تخریب کار اور پولرائزیشن کی سیاست سے پاک ہو، سماجی برابری اور انصاف میں یقین رکھنے والی طاقتیں مضبوط ہوں اور لوگوں کو ایک جوابدہ، حساس، شفاف اور ذمہ دار مرکزی حکومت ملے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined