جمعہ کے روز (5 جولائی) میرٹھ شہر کی تمام مسجدوں کے باہر بھاری تعداد میں پولس کی نفریاں موجود تھیں اور تمام اعلیٰ افسران درجنوں گاڑیوں کے ساتھ سی آر پی ایف کی نیلی پلٹن کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔ جمعہ کے پیش نظر بازاروں میں مسلم خواتین نہ کے برابر نظر آئیں، تمام اسکول بھی بند کر دیئے گئے اور انٹر نیٹ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ شہر میں کرفیوں کا اعلان تو نہیں تھا مگر حالات عین کرفیو جیسے ہی نظر آئے، پولس فورسز بھی اتنی زیادہ تعداد میں موجود رہی جتنی کہ عموماً کرفیو کے دوران میں ہوتی ہے۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
دراصل میرٹھ سمیت مغربی یو پی کے کئی شہروں میں جھارکھنڈ میں ہوئی تبریز انصاری کی موب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اسی سلسلہ میں اتوار کے روز میرٹھ میں بھی ایک امن مارچ نکالا گیا۔ اطلاعات کے مطابق مارچ میں موجود لوگوں پر پولس نے اچانک لاٹھی چارج کر دیا جس کے بعد افرا تفری پھیل گئی۔ اس معاملہ میں پولس نے اب تک 49 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ادھر، پولس کی جابرانہ کارروائی سے مشتعل کچھ لوگوں نے ایک پیغام کو سوشل میڈیا پر وائرل کر کے 5 جولائی کو ’بھارت بند‘ کی کال دے دی ہے۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
لیکن کیا یہ واقعہ اتنا سنگین تھا کہ شہر کے حالات اس قدر خراب ہو جائیں کہ کرفیو جیسی پابندیاں عائد کرنی پڑ جائیں! خیرنگر کے نفیس احمد (60 سال) کا کہنا ہے کہ اب تک سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سب کچھ کیسے ہو گیا اور اس معاملہ نے اتنی شدت کیونکر اختیار کر لی، انہوں نے کہا کہ امن مارچ کے دوران دو فرقے کسی بھی لمحہ آمنے سامنے نہیں آئے۔ حالانکہ کچھ لڑکوں نے مارچ کے خلاف نعرے بازی ضرور کی۔ پولس کو ان لوگوں کی نشاندہی کرکے کارروائی کرنی چاہیے۔ نفیس نے کہا کہ مارچ میں شامل لوگوں پر پولس کی اتنی زیادہ طاقت کا استعمال غلط تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مسلمانوں کو پولس کی طرف سے کسی خاص نظریہ کے تحت سبق سکھایا جا رہا ہے۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
چشمدیدوں کے مطابق فیض عام کالج کے میدان پر موب لنچنگ کے خلاف تقریباً 10 ہزار لوگ جمع تھے۔ اس مارچ کی کال مقامی تنظیم ’یوا سیوا سمیتی‘ کی طرف سے دی گئی تھی۔ سمیتی کے صدر بدر علی نے مارچ کی اپیل کی تھی۔ پولس نے بدر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے اور ان پر این ایس اے (قومی سلامتی قانون) کے تحت کارروائی کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
ادھر بدر علی کی گرفتاری کو ان کے اہل خانہ سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کے چچا افتخار علی خان نے کہا، ’’بدر ایک شریف اور ذمہ دار نوجوان ہے۔ پولس اکثر کشیدگی کے دوران اسے بلاتی رہی ہے اور میرٹھ کے نوجوانوں میں بھی وہ کافی مقبول ہے۔ اس کی تنظیم شہر میں خیرسگالی کے کام کرنے کے لئے جانی جاتی ہے، وہ ایک چیریٹی اسپتال کی بھی تعمیر کرا رہے ہیں۔ میرے بھتیجے کی مقبولیت کی وجہ سے اسے سیاسی سازش کا شکار بنایا جا رہا ہے۔‘‘
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
میرٹھ کے ایس ایس پی (سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولس) کے مطابق بدر علی کے جرائم کا ریکارڈ تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف این ایس اے کی کارروائی بھی کی جائے گی۔ اس نے بغیر اجازت مارچ نکال کر شہر کی فضا خراب کرنے کی کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ 5 تھانوں میں اس کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
پولس کے مطابق شہر میں بغیر اجازت احتجاجی مظاہرہ اور مارچ نکالنے کی وجہ سے افواہوں کا بازار گرم ہوا۔ اتنا ہی نہیں بھیڑ میں شامل کچھ نوجوانوں نے سر پر رومال باندھ کر قابل اعتراض حرکتیں بھی کیں۔ اس پر بدر علی کے چچا کا کہنا ہے کہ بھیڑ میں شامل کن لڑکوں نے حرکتیں کیں اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ہنگامہ کی شروعات کرنے والے لڑکوں کو مارچ کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
میرٹھ کے رہائشی عادل چودھری اس صورت حال کی ذمہ داری مسلم سیاسی رہنماؤں کی آپسی کھینچ تان کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بھیڑ جب واپس لوٹ رہی تھی تو کچھ لڑکوں نے پولس کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس کا پتہ لگایا جانا چاہیے کہ وہ لڑکے کون تھے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کہیں یہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں!‘‘
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Jul 2019, 8:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز