وارانسی کی ضلع عدالت کے ذریعے گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹھ کی اجازت دیے جانے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ عدالتوں کا کام ’آستھا‘ (عقیدت) کی بنیاد پر فیصلہ کرنا نہیں بلکہ دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔ بورڈ نے سپریم کورٹ کے بابری مسجد کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مندر کو گرا کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جمعہ (2 فروری) کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہماری عدالتیں ایسے راستے پر چل رہی ہیں کہ لوگوں کا ان پر سے اعتماد ختم ہو رہا ہے۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم پرسنل لاء بورڈ سے منسلک مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ہماری عدالتیں ایسی راہ پر چل رہی ہیں جہاں سے اس پر لوگوں کو بھروسہ ٹوٹ رہا ہے۔ یہ بات قانون کے کئی ماہرین بھی مانتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کل جو واقعہ پیش آیا وہ ناامیدی پیدا کرنے والا ہے۔ 20 کروڑ مسلمانوں کو اور انصاف پسند تمام شہریوں کو اس فیصلے سے بہت افسوس ہوا ہے۔ مسلمان رنج کی حالت میں ہیں۔ ہندو اور سکھ جو بھی یہ مانتے ہیں کہ یہ ملک مذہبوں کا گلدستہ ہے، ان سب کو اس فیصلے سے صدمہ پہنچا ہے۔‘‘
Published: undefined
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں تاریخ کی سچائی کو سمجھنا چاہئے۔ اس ملک میں انگریز آئے اور انہوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی۔ 1857 میں انہوں نے دیکھا کہ خدا کی عبادت کرنے والے اور پوجا کرنے والے دونوں متحد ہیں، تو انہوں نے دونوں قوموں میں پھوٹ ڈالنے اور آپسی دوریاں پیدا کرنا شروع کر دیا۔‘‘ مولانا رحمانی نے مزید کہا کہ ’’اگر مسلمانوں کی یہ سوچ ہوتی کہ دوسروں کی عبادت گاہ پر جبراً قبضہ کیا جائے تو کیا اتنے مندر موجود ہوتے؟ عدالت نے جس جلد بازی میں فیصلہ کیا ہے اور پوجا کی اجازت دی ہے، اس نے دوسرے فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اس سے انصاف کرنے والی عدالتوں کے اوپر سے بھروسہ گھٹا ہے۔ بابری مسجد کے فیصلے میں بھی کورٹ نے مانا تھا کہ مسجد کے نیچے مندر نہیں تھا لیکن ایک طبقے کی آستھا کو دیکھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا گیا۔‘‘
Published: undefined
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ’’گیانواپی اور کسی مسجد کے بارے میں یہ جو باتیں کہی جاتی ہیں کہ مندر کو مہندم کر کے مسجد بنائی گئی ہے تو یہ غلط ہے۔ اسلام میں چھینی ہوئی زمین پر مسجد نہیں بنا سکتے۔ پہلی مسجد جو بنی اس کی بھی زمین خریدی گئی تھی۔‘‘ واضح رہے کہ گزشتہ کل وارانسی کی ضلع عدالت نے ہندو فریق کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹھ کی اجازت دی تھی، جس کے بعد سے وہاں پر مسلسل پوجا کی جا رہی ہے۔ مسلم فریق کی جانب سے ضلع عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی گئی ہے جس پر سماعت کے لیے عدالت نے 6 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined