بدعنوانی پر وزیر اعظم نریندر مودی کا مشہور نعرہ ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘ ہر کسی کو یاد ہوگا۔ لیکن مودی کے اس نعرے کو ایک سروے نے جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ انھوں نے اسی سال یومِ آزادی کے موقع پر کہا تھا کہ 2022 میں جب ہندوستان اپنی آزادی کے 75 سال منا رہا ہوگا تو ملک بدعنوانی سے پاک ہو چکا ہوگا۔ لیکن لوکل سرکلس کے انڈیا کرپشن سروے 2017 سے پتہ چلتا ہے کہ بدعنوانی ختم ہونا تو دور اس میں کمی کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے 84 فیصد شہریوں کو سرکاری کاموں کو کرانے کے لیے رشوت دینی ہوتی ہے۔ یہ سروے گزشتہ ایک سال کے حالات پر مبنی ہیں۔
لوکل سرکلس کا یہ سروے ملک کے 200 شہروں میں ہوا ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی رائے لی گئی ہے۔ ریاستی سطح پر بھی سروے کیا گیا اور 12 ریاستوں کے لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST
سروے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے 84 فیصد شہریوں نے سرکاری کاموں کے لیے رشوت دی ہے۔ جن محکموں میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا ، ان میں میونسپل کارپوریشن، پولس، ویٹ، ملکیت رجسٹریشن، بجلی کنکشن وغیرہ محکمے شامل ہیں۔ دوسری طرف 45 فیصد لوگوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران کسی نہ کسی کام کے لیے رشوت دینے کی بات قبول کی ہے۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST
اس سروے میں شامل 51 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومتوں نے گزشتہ ایک سال میں بدعنوانی روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے ہیں۔ صرف 9 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کی شکایت سے متعلق ہیلپ لائن کام کرتی ہے۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST
اس سوال پر کہ آخر لوگ رشوت دیتے کیوں ہیں؟ سروے میں شامل 36 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ رشوت دینا ان کی مجبوری ہے کیونکہ اس کے لیے ان پر دباؤ بنایا گیا ورنہ ان کا کام نہیں ہوتا۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST
جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ رشوت میں کیا دیتے ہیں تو زیادہ تر کا کہنا تھا کہ نقد یعنی کیش پیسہ ہی رشوت دینے کا سب سے اہم طریقہ ہے۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST
شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی لوکل محکموں کا کمپیوٹرائزیشن ہونے کے باوجود رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ محکموں میں لگے سی سی ٹی وی کیمرہ سے کچھ حد تک فرق ضرور پڑا ہے۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Nov 2017, 10:18 PM IST