اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں تین مقامات پر واقع ’سیویج واٹر‘ میں کورونا وائرس موجود ہونے کی خبریں منظر عام پر آنے سے لوگوں میں زبردست دہشت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کیا اس سے انسانوں کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے، اور کیا حالات مزید خراب ہونے والے ہیں۔ سنجے گاندھی پی جی آئی کے ڈاکٹرس اب اس بات کی جانکاری کے لیے ریسرچ کر رہے ہیں کہ سیویج واٹر میں موجود کورونا وائرس کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
یہاں قابل ذکر ہے کہ کچھ مہینے پہلے ممبئی میں بھی سیویج واٹر میں کورونا وائرس ہونے کی خبریں سامنے آئی تھیں، اور اب لکھنؤ واقع تین سیویج واٹر میں کورونا وائرس پائے جانے سے عوام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں و سائنسدانوں کی فکر میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق لکھنؤ کے کھدرا، مچھلی محل اور گھنٹہ گھر کے پاس والے علاقہ میں موجود سیویج میں کورونا وائرس ملے ہیں۔ ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ یہاں پر رہنے والے کورونا متاثرین کے اسٹول (پاخانہ) سے کورونا وائرس سیویج میں پہنچ گیا ہوگا۔ سیویج کے پانی سے کورونا وائرس انفیکشن بڑھنے کے سوال پر ڈاکٹروں نے کہا کہ پانی سے انفیکشن پھیلے گا یا نہیں، یہ ریسرچ کے بعد ہی پتہ چل پائے گا۔
Published: undefined
لکھنؤ میں سنجے گاندھی پی جی آئی کے مائیکروبایولوجی ڈپارٹمنٹ کی چیف ڈاکٹر اجولا گھوشال کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے بعد انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور عالمی صحت ادارہ (ڈبلیو ایچ او) نے تحقیقی مطالعہ شروع کیا ہے۔ اس میں الگ الگ شہروں میں پانی میں موجود کورونا وائرس کا پتہ لگانے کے لیے سیویج سیمپل جمع کیے جا رہے ہیں۔ اسی کے تحت لکھنؤ کے تین مقامات سے لیے گئے سیمپل میں کورونا وائرس کی موجودگی کا پتہ چلا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined