ہندوستان میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے۔ کورونا وائرس وبا کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کے ذریعہ کیے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کا معیشت کو زبردست نقصان ہو رہا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ چھوٹی اور بڑی دونوں طرح کی کمپنیوں کی حالت خراب ہو گئی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ پریشانی ملک کے چھوٹے کرانہ دکانداروں کو اٹھانی پڑ رہی ہے۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
ایک نیوز پورٹل پر شائع خبر کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 7 لاکھ چھوٹی کرانہ کی دکانوں پر لاک ڈاؤن کا زبردست منفی اثر پڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دکانیں بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ ان دکانوں سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے اور ان کی روزی-روٹی اسی سے چلتی ہے۔ یہ دکانیں گھروں یا گلیوں میں چل رہی ہیں۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً ایک کروڑ چھوٹے کرانہ دکاندار ہیں۔ ان دکانداروں کو سامان کو فروخت کرنے کے لیے اس کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ایک کروڑ چھوٹے کرانہ دکانداروں میں سے تقریباً 6 سے 7 فیصد دکاندار سامان لانے اور دکان تک لے جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ملک بھر میں پچھلے دو مہینے سے لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے نہ ہی یہ سامان لا پا رہے ہیں اور نہ ہی دکان کھول پا رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں ان کے سامنے دکان کی پونجی ٹوٹنے کی نوبت آ گئی ہے۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد بھی چھوٹے کرانہ دکانداروں کے لیے راہ آسان نہیں ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نقدی کی قلت اور گاہکوں کی کمی ان کے لیے اب بڑا چیلنج ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ عام طور پر کرانہ دکانداروں کو تھوک تاجر یا صارف مصنوعات بنانے والی کمپنیاں 7 سے 21 دن یعنی دو سے تین ہفتے کے قرض پر مال دیتی ہیں۔ معیشت میں غیر یقینی کی وجہ سے سبھی ڈرے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے قرض پر مال ملنا مشکل ہوگا۔ ایسے میں ان دکانوں کا دوبارہ کھلنا بہت مشکل ہوگا۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
ایسا نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن میں صرف چھوٹے کرانہ دکاندار پریشان ہیں۔ اس پریشانی سے بڑی کمپنیاں بھی نبرد آزما ہیں۔ چھوٹی کرانہ دکانیں بند ہونے سے بڑی کمپنیوں کی پریشانیاں بھی بڑھنے والی ہیں۔ نیلسن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کل کرانہ پروڈکٹ کی فروخت میں قیمت کے حساب سے چھوٹی کرانہ دکانوں کی حصہ داری 20 فیصد ہے۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
خوردہ کاروباریوں کی تنظیم کیٹ کے جنرل سکریٹری پروین کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ ان دکانوں پر دودھ، بریڈ، بسکٹ، صابن، شیمپو اور کولڈ ڈرنکس کے ساتھ روزمرہ کی کئی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں جو زیادہ تر بڑی کمپنیاں بناتی ہیں۔ ایسے میں چھوٹی کرانہ دکانیں بند ہونے سے بڑی کمپنیوں پر بھی اثر پڑنا طے ہے۔ کھنڈیلوال کا ماننا ہے کہ چیلنج جتنا بڑا نظر آ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 May 2020, 3:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز