نئی دہلی: کورونا کی دوسری لہر ابھی پوری طرح تھمی بھی نہیں کہ ملک پر تیسری لہر کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ دوسری لہر کا سبب جہاں کورونا کا ڈیلٹا ویرینٹ بنا تھا وہیں تیسری لہر ڈیلٹا پلس ویرینٹ سے عروج پر پہنچے گی۔ حکومت نے جہاں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں ’ڈیلٹا پلس‘ ویرینٹ پہنچ گیا ہے، وہیں اس نے اس بات کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ یہ ویرینٹ تشویش کے زمرے میں آتا ہے۔
Published: undefined
ہیلتھ سیکریٹری راجیش بھوشن نے بتایا کہ ملک میں ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے کل 22 معاملوں کی تصدیق کی گئی ہے اور سب سے زیادہ معاملوں کا تعلق مہاراشٹر سے ہے، جہاں 16 معاملوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے معاملے مہاراشٹر کے علاوہ مدھیہ پردیش اور کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے کیسز کی تعداد پر مرکز اور مہاراشٹر کی حکومت کے اعداد و شمار میں کچھ فرق ہے۔ مہاراشٹر کے وزیر کا کہنا ہے کہ ریاست میں ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے 21 معاملوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ 9 معاملے رتنا گری، 7 معاملے جلگاؤں، 2 ممبئی سے اور پالگھر، تھانے اور سندھو درگ سے ایک ایک معاملہ رپورٹ ہوا ہے۔ ادھر، مرکزی وزارت صحت نے بتایا کہ ہندوستان کے علاوہ ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے معاملے امریکہ، برطانیہ، پرتگال، سوئٹزر لینڈ، جاپان، پولینڈ، نیپال، چین اور روس سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا کا ڈیلٹا ویرینٹ دنیا کے 80 ممالک میں پہنچ چکا ہے۔
Published: undefined
کورونا کے دونو ویرینٹ ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس خطرناک قرار دئے جاتے ہیں اور اب وزارت صحت نے بھی اسے تشویش والا ویرینٹ قرار دے دیا ہے۔ سیکریٹری صحت راجیش بھوشن نے کہا ہے کہ ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے معاملے ابھی چند ممالک سے ہی رپورٹ ہوئے ہیں، تاہم یہ ویرینٹ تشویش کے زمرے میں آتا ہے۔۔ وزارت صحت نے بتایا ہے کہ ہندوستانی سارس سی او وی۔2 جینومکس کنسورٹیم نے مطلع کیا ہے کہ ڈیلٹا پلس ویرینٹ آج کی تاریخ میں ’ویرینٹ آف کنسرن‘ ہے جو بہت تیزی سے انسان کے پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے۔
Published: undefined
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سیکریٹری صحت نے کہا ہے کہ ہندوستان میں استعمال ہونے والے دونوں ٹیکے، کووی شیلڈ اور کو ویکسین ڈیلٹا پلس اور ڈیلٹا ویرینٹ کے معاملوں میں موثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی یہ معلومات نہیں ہے کہ دونوں کس حد اور کتنی اینٹی باڈیز پیدا کریں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز