گاندھی اسمرتی اور دَرشن سمیتی کے ذریعہ شائع رسالہ ’اَنتم جَن‘ کے تازہ شمارہ کے صفحہ اول پر ہندوتوا نظریہ ساز ساورکر کی تصویر اور خصوصی شمارہ کو لے کر ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے ملزم رہے ساورکر پر خصوصی شمارہ گاندھی اسمرتی کے ذریعہ ہی شائع کیے جانے پر گاندھی واد، مورخین اور سول سوسائٹی کے لوگ کافی ناراض ہیں۔ ان لوگوں نے ’گاندھی دَرشن‘ سے اس چھیڑ چھاڑ کو لے کر مرکز کی مودی حکومت پر حملہ کیا ہے۔
Published: undefined
’گاندھی شانتی پرتشٹھان‘ کے سربراہ کمار پرشانت نے اس خصوصی شمارہ کو ’فاشزم کا برہنہ مظاہرہ‘ قرار دیا ہے، جبکہ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے بھی اس پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے گاندھی اسمرتی اور دَرشن سمیتی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رسالہ کے قارئین کو یہ بھی تفصیل سے بتائے کہ آخر ساورکر کو مہاتما گاندھی کے قتل میں سازشی کے طور پر ملزم کیوں بنایا گیا تھا۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ گاندھی اسمرتی اور دَرشن سمیتی مرکزی حکومت کی وزارت ثقافت کے ماتحت کام کرتی ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ میں مہاتما گاندھی سے جڑی چیزوں وغیرہ کی ایک میوزیم اور لائبریری ہے جس میں تقریباً 60 ہزار کتابیں ہیں اور گاندھی کی تقریباً 6 ہزار اصل تصویریں موجود ہیں۔
Published: undefined
بہرحال، تشار گاندھی نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ سے بات چیت میں کہا کہ ہندوتوادی طاقتیں طویل مدت سے ساورکر کو ایک عظیم مجاہد آزادی کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن وہ یہ بات لوگوں کو بتانے سے بچتی رہی ہیں کہ ساورکر نے برطانوی دور میں انگریزی حکومت کو کئی رحم کی عرضیاں لکھیں اور جب ہندوستان مہاتما گاندھی اور کانگریس کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا، اس وقت ساورکر انگریزوں کے ذریعہ دی جا رہی پنشن لے رہے تھے۔ تشار گاندھی نے سوال اٹھایا کہ ’’آخر ساورکر کا تحریک آزادی میں کیا تعاون ہے... وہ (ہندوتوادی طاقتیں) لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتا پاتے؟‘‘
Published: undefined
ہندوستان کے آزاد ہونے کے تقریباً 19 سال بعد ساورکر کی 1966 میں موت ہو گئی تھی۔ ساورکر کو ملک کی آزادی سے 23 سال پہلے ہی 1924 میں انگریزوں نے جیل سے رہا کر دیا تھا۔ رہائی کے بعد تاحیات یعنی موت تک کانگریس کے سیکولر نظریہ کے خلاف ساورکر نے سوائے ہندوتوا کو فروغ دینے کے کچھ نہیں کیا۔
Published: undefined
تشار گاندھی نے اس بات پر گہری مایوسی ظاہر کی کہ اب ساورکر کو قائم کرنے کے لیے بھی وہ گاندھی جی کے نام کا استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے اسے افسوسناک قرار دیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ گاندھی جی سے جڑے سبھی اداروں کو حکومت اور نوکرشاہی کے چنگل سے آزاد کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اگر حکومت گاندھی جی کے نام سے جڑے اداروں پر کنٹرول کرے گی تو اس قسم کی باتیں آنے والے وقت میں بھی لگاتار ہوتے رہنے کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں گاندھی جی کے نظریات پر ایک سیاسی نظریہ کو اثرانداز بنائے جانے کا خطرہ ہے۔‘‘
Published: undefined
’گاندھی شانتی پرتشٹھان‘ سے جڑے کمار پرشانت نے حالانکہ اس ایشو پر زیادہ کچھ نہیں کہا لیکن اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کو ایسے ایشوز پر رد عمل دیتے وقت سوچنا چاہیے کہ آخر ہم فاشزم کے خلاف لڑائی میں کیا کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’وزارتِ ثقافت کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہے شائع کرے، لیکن عام لوگوں اور سول سوسائٹی کا فوکس فاشزم اور ہندوتوادی نظریہ کو ہرانے پر ہونا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ رسالہ ’اَنتم جَن‘ کے کور یعنی صفحہ اول پر ساورکر کی تصویر ہے اور گاندھی اسمرتی اور دَرشن سمیتی کے نائب سربراہ اور بی جے پی لیڈر وجئے گویل نے ساورکر کو اپنے مضمون میں ’عظیم محب وطن‘ کہا ہے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ رسالہ کا پہلا مضمون مذہبی عدم برداشت پر گاندھی جی کے لکھے مضامین کے طور پر دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ دوسرا مضمون ساورکر پر ہے جو ہندوتوا مفکر پر وجئے گویل نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ رسالہ میں ساورکر پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے مضمون کو ’ساورکر ایک اَگنی‘ عنوان کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں رسالہ کے مدیر پروین دَت شرما کا مضمون ’گاندھی کا غصہ‘ عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اس خصوصی شمارہ کو لے کر اٹھے تنازعہ پر گاندھی اسمرتی اور دَرشن سمیتی کے نائب سربراہ وجئے گویل نے کہا تھا کہ رسالہ کا خصوصی شمارہ ساورکر پر اس لیے ہے کیونکہ 28 مئی کو ساورکر کا یومِ پیدائش ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ویر ساورکر ایک عظیم شخص تھے۔ گاندھی جی بھی بہت عظیم تھے، اسی طرح پٹیل بھی عظیم تھے۔ ہمیں ان کی قربانیوں سے سبق حاصل کرنی چاہیے۔ انگریزی حکومت میں جتنا وقت ساورکر نے جیل میں گزارا اتنا وقت کسی اور نے جیل میں نہیں گزارا۔‘‘ گویل نے مزید کہا کہ رسالہ تحریک آزادی سے جڑے مجاہدین آزادی پر خصوصی شمارے شائع کرتی رہے گی اور اگست کا شمارہ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے لیے وقف ہوگا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی گاندھی اسمرتی اور دَرشن سمیتی کے سربراہ ہیں۔ گاندھی اسمرتی کو پہلے 30 جنوری مارگ واقع بڑلا ہاؤس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی جگہ 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ بعد میں بڑلا ہاؤس کو ایک میوزیم میں بدل دیا گیا تھا۔
Published: undefined
بہرحال، رسالہ کے ساورکر پر خصوصی شمارہ کو لوک سبھا میں کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے مایوس کن بتاتے ہوئے کہا تھا کہ مرکزی حکومت گاندھی جی سے جڑے اداروں کی حد سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا تھا ’’موجودہ حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے جو افسوسناک ہے۔‘‘
Published: undefined
ویسے مہاتما گاندھی کے قتل پر حال میں شائع ایک کتاب کے مصنف اور صحافی دھیریندر کمار جھا کا کہنا ہے کہ ’’گاندھی جی کے قتل کی سازش کے ہر پہلو کی ٹھیک طرح جانچ نہیں ہو پائی تھی۔ گاندھی جی کے قتل کے کافی وقت بعد معاملے کی جانچ کے لیے کپور جانچ کمیشن 1966 میں بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن نے صاف کہا تھا کہ ساورکر اور ان کی قیادت میں دیگر لوگوں نے گاندھی جی کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔ مقدمے کے دوران ساورکر کو صرف شبہات کا فائدہ ملا تھا، ایسے میں انھیں اس الزام سے بری نہیں مانا جا سکتا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined