بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں ’منوسمرتی‘ کو لے کر ایک ریسرچ پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ اس معاملے میں اب کچھ طلبا نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ دراصل سنسکرت ودیا دھرم سائنس فیکلٹی کے ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘ نے 21 فروری کو ’منوسمرتی کا ہندوستانی سماج پر اطلاق‘ نامی پروجیکٹ کے لیے فیلوشپ کا اشہتار دیا تھا۔ اس کے بعد 27 فروری تک اس پروجیکٹ کے فیلوشپ کے لیے درخواست کی میعاد بھی مکمل ہو چکی ہے۔ اس پروجیکٹ کو 31 مارچ 2024 تک مکمل کرنا ہے، لیکن کچھ طلبا نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ احتجاج کرنے والے بیشتر طلبا کا تعلق درج فہرست ذات سے ہے۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق منوسمرتی ریسرچ پروجیکٹ معاملے کو لے کر بی ایچ یو میں ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘ کے شعبہ صدر پروفیسر شنکر کمار مشرا نے بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب منوسمرتی پڑھائی جا رہی ہے۔ جب سے ان کا شعبہ بنا ہے، تبھی سے منوسمرتی سمیت کئی صحیفے کورس میں شامل ہیں اور پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ پروفیسر شنکر کا کہنا ہے کہ ان کے شعبہ میں سبھی طبقہ کے طلبا موجود ہیں اور ڈگری لیتے ہیں۔ اس کے بعد طلبا پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔ منوسمرتی میں اچھے اخلاقیات کے لیے سبق ہے اور اس لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ دھرم شاستر (رلیجن سائنس) میں کئی نظریات اور موضوعات کو آسان لفظوں و اختصار کے ساتھ عام لوگوں کے سامنے رکھنے کا عزم ہے تاکہ انسانی فلاح کے لیے بتائی گئی باتوں کو پھیلایا جا سکے۔ اسی مقصد سے کورونا بحران میں ہی تجویز کو آئی او ای سیل میں بھیجا گیا تھا۔ پروفیسر شنکر کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سے تین دہائی میں سماج کے اندر انسانیت کا زوال ہوا ہے۔ منوسمرتی میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ملا جو ناموافق ہو۔ پھر بھی اگر ایسا لگتا ہے کہ منوسمرتی کی چیزیں آج کے مطابق مناسب نہیں ہے، تو میں اپنے پروجیکٹ میں اصلاح کے لیے درخواست دوں گا۔
Published: undefined
دوسری طرف بی ایچ یو کے طالب علم اجئے بھارتی کا کہنا ہے کہ ملک منوسمرتی سے نہیں بلکہ آئین سے چلتا ہے۔ اس میں سبھی کو برابری کا حق دیا گیا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ذات اور اونچ-نیچ کی باتیں موجود ہیں۔ آئین سبھی کو تعلیم و برابری کا حق دیتا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ایسا نہیں ہے۔ اس لیے آئین کے مطابق اس طرح کا ریسرچ پروجیکٹ نہیں چلایا جانا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز