ہندوستان کی کئی ریاستوں میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس سے قبل ملک کے چیف الیکشن کمشنر اور دونوں الیکشن کمشنرس کو وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کے ذریعہ میٹنگ کے لیے بلائے جانے پر سیاسی حلقے میں ہنگامہ شروع ہو گیا ہے۔ کانگریس سمیت اپوزیشن پارٹیوں نے اسے بے حد سنگین بتاتے ہوئے مودی حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کی نیت اور آئندہ انتخابات کی غیر جانبداری پر سوال اٹھایا ہے۔
Published: undefined
چیف الیکشن کمشنر سشیل چندر اور دونوں الیکشن کمشنرس راجیو کمار اور انوپ چندر پانڈے کے 16 نومبر کو وزیر اعظم دفتر کے ذریعہ بلائی گئی ایک غیر رسمی آن لائن میٹنگ میں شامل ہونے پر بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ کانگریس لیڈر ملکارجن کھڑگے نے ان حالات میں آئندہ اسمبلی انتخابات کی غیر جانبداری پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پروٹوکول کے مطابق افسر کسی ایشو پر رائے کے لیے انتخابی کمیشن کے پاس جا سکتے ہیں، لیکن دوسرے طریقے سے نہیں۔ آپ کسی ادارہ کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔
Published: undefined
کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا کا کہنا ہے کہ اب تک جو گفتگو چل رہی تھی، وہ سچ ثابت ہوئی ہے۔ آزاد ہندوستان میں پی ایم او کے ذریعہ چیف الیکشن کمشنر کو بلانے کا واقعہ اب تک نہیں دیکھا گیا۔ انتخابی کمیشن کو ایک معاون اسلحہ کی شکل میں ماننا مودی حکومت کے ہر ادارے کو تباہ کرنے کے ریکارڈ میں مزید ایک قدم ہے۔
Published: undefined
اس درمیان کانگریس رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے 16 نومبر کو وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرس کی میٹنگ کے مدنظر انتخابی کمیشن کی خود مختاری اور اداروں کی آزادی پر بحث کرنے کے لیے لوک سبھا میں تحریک التوا کا نوٹس دیا ہے۔ علاوہ ازیں سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری نے اسے ظلم کہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ایم او ایک آزاد آئینی اتھارٹی کو کیسے بلا سکتا ہے؟ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ انتخابی کمیشن کیسے اس کے لیے موجود ہو سکتا ہے؟ انتخابی کمیشن کی ذمہ داری اور غیر جانبداری پر سوال کھڑے ہوتے ہیں۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ پی ایم او کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے لیے وزارت قانون کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کو خط بھیجا گیا تھا۔ حالانکہ خط کی زبان پر چیف الیکشن کمشنر ناخوش بتائے جا رہے ہیں۔ پھر بھی وزارت قانون کے خط کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور دو دیگر الیکشن کمشنرس کو پی ایم او افسران کے ساتھ میٹنگ میں شامل ہونا پڑا۔ تینوں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ میٹنگ میں شامل ہوئے۔ دراصل وزارت قانون کے خط میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا ایک میٹنگ کرنے والے ہیں جس میں چیف الیکشن کمشنر کا موجود رہنا بھی ضروری ہے۔
Published: undefined
ذرائع کا کہنا ہے کہ خط میں لکھی زبان چیف الیکشن کمشنر کو پسند نہیں آئی۔ خط کی زبان ایسی تھی جیسے کسی کو سمن بھیجا گیا ہو۔ باتیں ہو رہی ہیں کہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی دو میٹنگیں ہو چکی ہیں جن میں الیکشن کمشنرس کو بلایا گیا تھا، لیکن ان میں وہ شامل نہیں ہوئے تھے۔ پہلے چیف الیکشن کمشنر کو شامل ہونے کے لیے اس طرح نہیں کہا گیا تھا، لیکن اس بار صاف طور پر شامل ہونے کا حکم تھا۔ اسی بات پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined