قومی خبریں

نریندر مودی ’من کی بات‘ میں ہریانہ عصمت دری پر جواب دیں: کانگریس

ہریانہ میں لگاتار جاری عصمت دری کے واقعات پر کانگریس نے ایک بار پھر منوہر لال کھٹر حکومت سے ناراضگی ظاہر کی ہے اور ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تصویر ویپن
تصویر ویپن ہریانہ میں لگاتار عصمت دری کے واقعات پر کانگریس کی پریس کانفرنس کا منظر

نیشنل ویمن کانگریس کی سربراہ اور ممبر پارلیمنٹ سشمتا دیو نے ہریانہ میں جاری عصمت دری کے واقعات پر ایک کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ میں نظامِ قانون کی حالت افسوسناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’دراصل یہ ملک کا ’ریپ کیپٹل‘ بنتا جا رہا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولس آر سی مشرا کا رویہ اس معاملے میں حیران کرنے والا ہے۔ وزیر اعلیٰ اپنی توجہ اس طرح کے جرائم پر قدغن لگانے کی جگہ سیاسی بیان بازی اور سیاسی داؤ کھیلنے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔‘‘

ہریانہ میں عصمت دری کی شکار لڑکیوں کے فیملی والے لگاتار غیر جانبدارانہ سماعت کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن کھٹر حکومت کے ذریعہ کسی طرح کارروائی نہ کیے جانے پر نیشنل ویمن کانگریس نے ناراضگی ظاہر کی۔ پریس کانفرنس میں کانگریس ممبر پارلیمنٹ کماری شیلجا، سشمتا دیو اور ہریانہ کی کانگریس ممبر اسمبلی کرن چودھری نے کہا کہ حکومت چار لاکھ روپے کے معاوضہ کی ادائیگی کر کے اس ایشو سے خود کو الگ نہیں کر سکتی۔ سشمتا دیو نے متاثرہ خاندانوں کا درد پریس کانفرنس میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’کروکشیتر اجتماعی عصمت دری واقعہ میں ماری گئی متاثرہ پڑھنے میں بہت تیز تھی، اس نے اسکول میں 95 فیصد نمبر حاصل کیا تھا۔ حکومت کو متاثرہ خاندانوں کے ایک رکن کو مستقل ملازمت دینی چاہیے۔‘‘

خاتون کانگریس کی سربراہ دیو نے اس موقع پر یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’’اس ایشو پر وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں۔ انھیں اس ایشو کو اپنے ’من کی بات‘ میں شامل کرنا چاہیے۔ انھیں بتانا چاہیے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے کیا قدم اٹھائے گئے ہیں اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا کو کیا نشانہ دیا گیا ہے۔ ملک کے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دیا تھا۔ یہ نعرہ بھی دوسرے نعروں کی طرح محض ’جملہ‘ ہی ثابت ہوا۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں گزشتہ 12 دنوں میں 10 عصمت دری کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں ہر 8 گھنٹے میں عصمت دری کا ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ سشمتا دیوی نے کہا کہ ’’یہ ایک سنگین حالت ہے۔ وزیر اعلیٰ ریاست کے وزیر داخلہ ہیں، اس لیے براہ راست یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ریاست میں مشرا جیسے پولس افسر بھی ہیں جنھوں نے یہ کہتے ہوئے اس معاملے کو معمولی بتایا کہ ایسے حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی ذہنیت ہے۔ مشرا کو ان کے عہدہ سے ہٹایا جانا چاہیے۔‘‘

وزیر اعلیٰ کھٹر کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کماری شیلجا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’2014 کے بعد سے ہر سال خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ معاملے ہیں جن میں شکایتیں درج ہوئی ہیں، لیکن ان معاملوں کا کیا جن کی شکایت بھی درج نہیں ہوتی۔ یہ ریاست میں نظامِ قانون کی حالت ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ عورتوں کے تحفظ کے تئیں حکومت سنجیدہ ہے۔‘‘

واضح رہے کہ اپنی انتخابی تشہیر میں کھٹّر نے کہا تھا کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا تھا کہ خواتین کے تحفظ کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے اور انھیں خود کی حفاظت کے طریقے سکھائے جائیں گے، لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ سشمتا دیو نے اس سلسلے میں سوال کیا کہ ’’جب نربھیا معاملہ ہوا تھا تو بی جے پی لیڈروں نے منموہن سنگھ اور دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دیکشت کا استعفیٰ مانگا تھا، اب کیا ہوا۔‘‘

ہریانہ کے ’توشام‘ سے کانگریس ممبر اسمبلی کرن چودھری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس طرح کے معاملوں میں حکومت کی طرف سے کسی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ پولس افسران کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کے جرائم عام بات ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی اس لیے وہ اطمینان ہیں۔ آخر منتخب حکومت اپنا کام نہیں کر رہی تو کھٹر کو استعفیٰ دینا چاہیے۔‘‘ انھوں نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں اسمبلی نہیں چلنے دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ ہماری بیٹیوں کا سوال ہے۔ پورے ہریانہ کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہ حکومت کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ 17 جنوری کو کانگریس لیڈروں کے ایک نمائندہ وفد نے ہریانہ کے گورنر کپتان سنگھ سولنکی سے ملاقات کر کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹّر کی قیادت والی حکومت سے استعفیٰ لے کر ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined