ہریانہ میں خواتین کے خلاف لگاتار بڑھ رہے جرائم اور ڈوکلام میں چینی فوجیوں کی دراندازی کے ایشو پر کانگریس نے مرکز کی مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ دہلی میں پریس کانفرنس کر کانگریس لیڈر رندیپ سرجے والا نے مرکزی حکومت سے سات سوال پوچھے ہیں۔ سرجے والا نے کہا کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈوکلام سے متعلق جو تصویریں سیٹلائٹ سے سامنے آئی ہیں کیا اس کی جانکاری مرکزی حکومت کو ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیا اس رپورٹ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی اس بات کا اعتراف کریں گے کہ ایک بار پھر ڈوکلام میں نیا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
Published: undefined
رندیپ سرجے والا نے مرکزی حکومت سے سوال پوچھا کہ ڈوکلام میں چین نے جو موجودہ حالت پیدا کی ہے کیا وہ 28 اگست 2017 کے وزارت خارجہ کے ہند-چین معاہدہ کے مطابق ہے؟ انھوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق چین نے اروناچل پردیش میں 1.3 کلو میٹر اندر تک روڈ بنا لی ہے، کیا یہ بات سچ ہے؟ سرجے والا نے مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج کے اس سرکاری بیان کا بھی ذکر کیا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ڈوکلام ایشو کو بات چیت سے حل کر لیا جائے گا۔ سرجے والا نے مودی حکومت سے پوچھا کہ ڈوکلام میں نئی سرگرمیاں کیا سمجھوتے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ انھوں نے حکومت سے پوچھا کہ اپنے دعوؤں کے مطابق مودی حکومت نے اب تک دراندازی روکنے کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔
Published: undefined
پریس کانفرنس کے دوران کانگریس لیڈر رندیپ سرجے والا نے ہریانہ میں خواتین کے خلاف بڑھ رہے جرائم سے متعلق ریاست کی کھٹّر حکومت پر حملہ کیا۔ انھوں نے ریاست میں سامنے آ رہے عصمت دری کے واقعات پر بی جے پی حکومت کی سخت تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ آج بھی ہریانہ کے فتح آباد میں اجتماعی عصمت دری کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ سرجے والا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹّر کی حکومت دہلی میں بیٹھ کر ہریانہ چلانا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو بی جے پی سربراہ اور مرکز کے لیڈروں کے یہاں حاضری دینے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ سرجے والا نے کہا کہ صرف کچھ افسران کے تبادلے سے ریاست میں عصمت دری کے واقعات رکنے والے نہیں ہیں۔ سرجے والا نے الزام لگایا کہ عصمت دری کے معاملوں میں ہریانہ سرکار اعداد و شمار میں پہلے مقام پر ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان واقعات کے لیے صرف کھٹّر حکومت ہی نہیں مرکز کی مودی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے کیونکہ جرائم پیشہ افراد ہریانہ-دہلی سرحد کا بھی استعمال کرتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز