سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف تحریک مواخذہ کے نوٹس پر راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضی کو کانگریس ارکان کے وکیل کپل سبل نے واپس لے لی ہے۔ کانگریس ارکان کے وکیل کے پاس کل اس وقت ہی اس معاملے کو آگے بڑھانے کی گنجائش ختم ہو گئی تھی جب چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) دیپک مشرا نے کل شام اچانک اس معاملے کی سنوائی کے لئے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دی تھی، جس میں چار سینئر ججوں کو اس کا حصہ نہیں بنایا تھا۔
Published: 08 May 2018, 11:33 AM IST
کانگریس ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے دائر کی گئی عرضی پر 5 رکنی آئینی بنچ تشکیل دئیے جانے پر کپل سبل نے کہا ’’ہم جاننا چاہتے تھے کہ آخر راتوں رات عرضی کو آئینی بنچ کو ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کس کا تھا۔‘‘
کپل سبل نے کہا کہ ’’آرٹیکل 145 (3) کے تحت اگر عدالت کو لگے کہ عرضی قانونی تشریح سے وابستہ ہے تو پھر معاملہ 5 ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے جائے گا۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ حکم کس نے جاری کیا۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی انتظامی فیصلہ ہوا ہے اس کے بارے میں پتہ چلے کہ یہ کس نے کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ چیف جسٹس نے یا کسی اور نے اسے منظور کیا ہے تو اس کی کاپی کہاں ہے۔‘‘
Published: 08 May 2018, 11:33 AM IST
کپل سبل نے کہا کہ ’’اگر ایسے آرڈر کی کاپی ہمیں مل جاتی ہے تو ہم یہ طے کریں گےکہ اس فیصلے کو چیلنج کریں یا نہیں۔ یہ بات ہم نے عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھی۔ اس پر عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آرڈر کی کاپی ہمیں دی جائے گی یا نہیں۔‘‘ کپل سبل نے سوال کیا، ’’آخر ہم عدالت کے کسی فیصلے کو چیلنج کیوں نہیں کر سکتے؟ ایسا کوئی آرڈر ہے تو ہمیں بتایا جائے۔‘‘
کپل سبل نے کہا کہ ’’ہمیں عدلیہ یا کسی جج سے کوئی ذاتی شکایت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت کا نظام پوری طرح سے شفاف ہو۔ ہم عدالت کی خود مختاری اور آزادی کو بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ کپل سبل نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم نے جو بھی مدے تحریک مواخذہ کے نوٹس میں اٹھائے تھے وہ کسی سیاست پر مبنی نہیں ہیں بلکہ جو ابھی عدلیہ میں چل رہا ہے اس سے وابستہ ہیں۔‘‘
Published: 08 May 2018, 11:33 AM IST
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بتایا ’’آج صبح 10.30 بجے عدالت نمبر 6 میں اس معاملے کی سنوائی شروع ہونی تھی۔ کانگریس ارکان کے وکیل کپل سبل نے بینچ سے سوال کیا کہ کس ضابطے کے مطابق یہ بینچ تشکیل دی گئی ہے اور اس کیس کی سنوائی عدالت نمبر 2 میں کیوں نہیں کی گئی اور اگر آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے تو ہم اپنی عرضی واپس لیتے ہیں‘‘۔ عرضی واپس لینا چیف جسٹس دیپک مشرا کے لئے بہت بے عزتی کی بات ہے کیونکہ اگر سی جے آئی کی تشکیل کردہ بینچ پرعرضی گزار کا اعتماد نہ ہو تو یہ بنیادی طور پرسی جے آئی کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
سی جے آئی نے جو بینچ تشکیل دی تھی اس میں جسٹس ایس بوبڈے، جسٹس اے کے سیکری، جسٹس آر وی رمنا، جسٹس ارون مشرا اور جسٹس اے کے گوئل شامل تھے۔
Published: 08 May 2018, 11:33 AM IST
اس سے پہلے، گزشتہ روز کانگریس کے دو راجیہ سبھا ارکان پرتاپ سنگھ باجوہ (پنجاب) اور یامی ياگنك (گجرات) کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل نے یہ معاملہ عدالت کے دوسرے نمبر کے سینئر جج جسٹس چیلا جئے میشور کے سامنے خاص طور سے اٹھایا تھا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے جسٹس چیلا جےمیشور سے درخواست کو فوری طور پر سماعت کے لئے کہا تھا۔ لیکن عدالت نے اس پر فوری طور پر کوئی فیصلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس چیلا جئے میشور نے کہا کہ چونکہ سی جے آئی (چیف جسٹس آف انڈیا) کو ماسٹر آف روسٹر کا درجہ آئینی بنچ سے ملا ہوا ہے، تو یہ درخواست بھی سی جے آئی کے پاس ہی بھیجی جانی چاہئے۔ اس پر کپل سبل نے دلیل دی کہ چونکہ مواخذہ کی عرضی سی جے آئی کے خلاف تھی، لہذا اس معاملے میں دائر عرضی پر سماعت کا حکم عدالت کے دیگر سینئر جج صاحبان جاری کر سکتے ہیں۔ لیکن عدالت نے کوئی ہدایت دینے کے بجائے ان کی درخواست پر غور کرنے کے لئے درخواست گزاروں کو منگل کو ساڑھے 10 بجے آنے کو کہا تھا۔
واضح ر ہے کہ سی جے آئی کے ضابطہ و طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے کانگریس کی قیادت میں سات اپوزیشن پارٹیوں کے 64 ممبران پارلیمنٹ نے راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو کو جسٹس مشرا کے خلاف مواخذے کا نوٹس دیا تھا۔ نائیڈو نے نوٹس پر سرسری غور کرتے ہوئے گزشتہ 24 اپریل کو اسے مسترد کردیا تھا۔
Published: 08 May 2018, 11:33 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 May 2018, 11:33 AM IST
تصویر: پریس ریلیز