سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیر میں ہونے والی حالیہ شہری ہلاکتوں کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات نوے کی دہائی میں پیش آتے تھے۔ ان کا الزام تھا کہ حکومت نے انٹیلی جنس اطلاعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جس کی وجہ سے یہ واقعات پیش آئے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اقلیتی فرقوں کو نشانہ بنانا نسل کشی نہیں ہے، بلکہ یہ جموں و کشمیر میں جاری نامساعد حالات کا ہی شاخسانہ ہے۔
Published: undefined
پارٹی کے صوبہ جموں کے صدر دیویندر سنگھ رانا اور سینیئر لیڈر سرجیت سنگھ سلاتھیہ کے مستعفی ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ لیڈروں کا مستعفی ہونا پارٹی سے زیادہ میرے لئے ذاتی طور پر بڑا دھچکہ ہے۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ایک نیوز پورٹل کے ساتھ ایک انٹریو کے دوران کیا ہے۔
Published: undefined
عمر عبداللہ نے کہا کہ 'کشمیر میں ہونے والی حالیہ شہری ہلاکتیں انتہائی تشویش ناک ہیں ایسے واقعات ہمارے تین دہائیوں پر محیط تاریک ماضی میں رونما ہوتے تھے، نوے کی دہائی میں اس طرح کی ٹارگٹ ہلاکتیں ہوتی تھیں اور سال 2000 کے بعد ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، ہم سب کو بہت تشویش ہے'۔
Published: undefined
کشمیر میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانے کو نسل کشی سے تعبیر کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر عمر عبداللہ نے کہا کہ ہمیں اس کے لئے ہلاکتوں کا تناسب دیکھنا چاہیے سال رواں کے دوران اب 28 شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں سے 21 مسلمان تھے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نسل کشی نہیں ہے بلکہ جموں و کشمیر میں جاری ٹیرر واقعات کا شاخسانہ ہے'۔
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے بہت افسوس ہے کہ کچھ لوگ ان واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے اس گھمبیر صورتحال پر بھی سیاست کر رہے ہیں'۔ موصوف نائب صدر نے کہا کہ حکومت اقلیتی فرقے کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور اب انہیں ٹرانزٹ قیام گاہوں میں بند کرتی ہے۔
Published: undefined
عمر عبداللہ نے کہا کہ آج ملی ٹنٹ سری نگر کے قلب میں موجود ہیں جس کی وجہ سے اقلیتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانا ان کے لئے آسان بن گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ملی ٹنٹ پہلے دیہی علاقوں تک ہی محدود تھے لیکن آج وہ شہر کے قلب میں موجود ہیں جس کی وجہ سے اقلیتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانا ان کے لئے آسان بن گیا ہے جہاں دوا فروش مکھن لال بندرو کو ہلاک کیا گیا وہ جگہ ہائی کورٹ اور سیول سکریٹریٹ سے چند سو فٹ دوری پر ہی واقع ہے'۔
Published: undefined
عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر بقول مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر میں حالات ٹھیک ہوتے تو یہاں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے انٹیلی جنس اطلاعات پر کارروائی نہیں کی ورنہ ایسے حالات پیش نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ 'جب گزشتہ دو تین ماہ سے میں سن رہا تھا کہ کشمیر میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے حکومت کو بھی یہ چیزیں معلوم ہوں گی لیکن حکومت نے اںٹیلی جنس اطلاعات پر سنجیدگی سے کارروائی نہیں کی'۔
Published: undefined
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں غیر یقینی صورتحال سایہ فگن ہے یہاں لوگوں کو حالات بد سے بدتر ہونے کی ہی توقعات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان شہری ہلاکتوں کے بعد سات سو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'گرفتار شدگان بالائے زمین ملی ٹنٹ بھی ہو سکتے ہیں اور پھتر باز بھی رہے ہوں گے لیکن یہ صرف کشمیری پنڈتوں کو دکھانے کے لئے کیا جا رہا ہے اس سے مسئلے کا حل نہیں ہے'۔
Published: undefined
موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سیاحت کو نارملسی سے جوڑنے سے سیاحت کا نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا سیاحوں کا یہاں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے جب میں وزیر اعلیٰ تھا تب سیاح یہاں آتے تھے جب غلام نبی آزاد صاحب وزیر اعلیٰ تھے تب بھی آتے تھے لیکن سیاحوں کی آمد کو نارمسلی کے بیانیے سے جوڑنے سے سیاحت کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ یہ بیانیہ حملوں کا باعث بن جاتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز