قومی خبریں

ہندوستان کی معاشی خوشحالی کو چین نقصان پہنچا رہا اور مودی حکومت نے پُراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے: کانگریس

جئے رام رمیش نے جی ٹی آر آئی کی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مودی حکومت پر حملہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ چین سے چھاتا، موسیقی کے سامان کی درآمدگی ہندوستانی ایم ایس ایم ای شعبہ کو متاثر کر رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

جئے رام رمیش، تصویر سوشل میڈیا

 

کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ چین سے بے قابو درآمدات گھریلو سطح پر ’قہر‘ برپا کر رہا ہے۔ انھوں نے مودی حکومت پر ملک کی علاقائی سالمیت اور معاشی خوشھالی کو چین کے ذریعہ پہنچائے جا رہے نقصان پر ’سوچی سمجھی خاموشی‘ اور ’عدم سرگرمی‘ بنائے رکھنے کا الزام عائد کیا۔ جئے رام رمیش نے الزام لگایا کہ بے قابو چینی درآمدات اور ’ڈمپنگ‘ پر حکومت ہند کا رد عمل ’بکھرا‘ ہوا ہے۔

Published: undefined

یہ تبصرہ تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹیو (جی ٹی آر آئی) کی اس رپورٹ پر آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چین سے چھاتا، موسیقی کے سامانوں کی درآمدات ہندوستانی ایم ایس ایم ای شعبہ کو متاثر کر رہا ہے۔ جئے رام رمیش نے ’ایکس‘ پر کہا کہ ’’ہر دن چینی درآمدات پر ہندوستانی معیشت کے بڑھتے انحصار پر نئی جانکاری سامنے آتی ہے۔ آج ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے ملک کے تقریباً 96 فیصد چھاتے اور 50 فیصد سے زیادہ کھلونے اور موسیقی کے سامان چین سے آ رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک سامانوں جیسی اہم صنعتوں میں چین سے ہندوستان کی درآمدات تقریباً 9 گنی بڑھی ہے جو 17-2016 میں 1.4 ارب ڈالر تھی اور 24-2023 میں یہ بڑھ کر 12.1 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری نے کہا کہ اس مدت کار میں ہندوستان کی ادویات کی درآمدات 1.6 ارب ڈالر سے دوگنی ہو کر 3.3 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔

Published: undefined

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا کہ ’’دنیا بھر کی حکومتیں چین کی بے انتہا صنعتی صلاحیت اور بیرون ممالک میں اس کے مال کی ’ڈمپنگ‘ کو لے کر بیدار ہیں۔ وہ بے قابو چینی درآمدات کو ممنوع کرنے کے لیے سرگرم قدم اٹھا رہی ہیں اور معاشی طور سے چین کے تئیں منحصر ہونے کے جوکھم کی جگہ اس سے ’علیحدہ ہونے‘ کو ترجیح دینے کے لیے مربوط معاشی پالیسیوں پر عمل کر رہی ہیں۔ لیکن ہماری سرحدوں پر اور ہماری زمین کے اندر چینی فوجیوں کی طرف سے بڑھتے قومی تحفظ پر مشتمل خطرے کے باوجود حکومت ہند اس معاملے میں سستی سے کام لے رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

کانگریس جنرل سکریٹری نے کہا کہ ’ٹک ٹاک‘ پر تو پابندی لگا دی گئی، لیکن درآمدات بر رہی ہے۔ چین سے بے قابو درآمدات گھریلو سطح پر قہر برپا رہی ہے۔ مثال کے لیے نان بایولوجیکل وزیر اعظم کی آبائی ریاست گجرات میں ہندوستان کے تقریباً 35-30 فیصد اسٹینلس اسٹیل ایم ایس ایم ای کو بڑے پیمانے پر سستی چینی درآمدات کے سبب جولائی سے ستمبر 2023 کے درمیان بند کرنی پڑی ہے۔ کانگریس لیڈر کا کہنا ہے کہ اس شعبہ میں 80 فیصد ایم ایس ایم ای گجرات میں ہے اور اسٹیل جیسی اہم گھریلو صنعت کا اس طرح سے برباد ہونا معاشی چیلنج اور قومی سیکورٹی کے لیے خطرہ دونوں ہے۔

Published: undefined

جئے رام رمیش نے واضح لفظوں میں کہا کہ چین سے درآمدات میں اضافہ کو برداشت کیا بھی جا سکتا تھا اگر اسے ہندوستانی مینوفیکچرنگ اور برآمدات کو حمایت ملتی۔ لیکن ہندوستان کا مینوفیکچرنگ بیس سکڑ رہا ہے۔ جی ڈی پی کے فیصد کی شکل میں یہ یو پی اے دور کے 16.5 فیصد سے گر کر آج 14.5 فیصد رہ گیا ہے۔ محنت پر مبنی مینوفیکچرنگ خاص طور سے سست رہی ہے۔ کپڑا، چمڑا، کپڑا اور جوتا کے عالمی برآمدات میں ہندوستان کی حصہ داری 2002 میں 0.9 فیصد تھی۔ یہ 2013 میں بڑھ کر 4.5 فیصد کے عروج پر پہنچ گئی۔ لیکن آگے چل کر 2022 میں یہ گھٹ کر 3.5 فیصد پر آ گئی۔‘‘

Published: undefined

کانگریس جنرل سکریٹری کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب مینوفیکچرنگ عالمی سطح پر ترجیح بن رہی ہے اور ہارڈویئر پروڈکشن مصنوعی ذہانت و شفاف توانائی جیسے ابھرتے سیکٹرس کے لیے اہم بن گیا ہے، ہندوستان مینوفیکچرنگ میں اضافہ کرنے میں اپنی نااہلی کے سبب پیچھے ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس شعبہ میں مضبوطی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے کی جگہ چین سے بے قابو درآمدات سے ہماری موجودہ مینوفیکچرنگ بھی کھوکھلی ہو رہی ہے۔ 19 جون 2020 کو چین کو نان بایولوجیکل وزیر اعظم کی ’کلین چٹ‘ آنے والے وقت کا اشارہ تھا۔ چین کے ذریعہ ملک کی علاقائی سالمیت اور معاشی خوشحالی کو پہنچائے جا رہے نقصان پر ایک پُراسرار خاموشی فکر انگیز ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined