دنیا کو ایک بار پھر خطرناک بیماری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بیماری کا نام ہے ’میڈ کاؤ‘۔ اس نے کئی ممالک میں اپنا قہر برپا کرنے کے بعد اب برازیل میں انفیکشن پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ چین میں دہشت دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس بیماری سے بچنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ چین نے برازیل سے بیف (گائے-بھینس کا گوشت) کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔
Published: undefined
چینی میڈیا کے مطابق برازیل کی وزارت برائے زراعت و مویشی کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ روک لگائی گئی ہے۔ دراصل برازیل کی شمالی ریاست میں ’میڈ کاؤ‘ کی بیماری کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ ایک متعدی بیماری ہے جو جانوروں سے انسانوں تک بھی پھیل سکتی ہے۔ حالانکہ برازیل کے وزیر کارلوس فیورو نے کہا ہے کہ فی الحال سبھی طرح کی جانچ کی جا رہی ہے اور برازیل کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک کے صارفین کو اسٹینڈرڈ کوالٹی کے بیف فراہم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کارلوس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو پوری شفافیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے تاکہ کسی کی جان کو خطرہ نہ ہو اور دنیا کے سامنے کوئی نیا بحران کھڑا نہ ہو جائے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ میڈ کاؤ بیماری کو بی ایس ای (بوائن اسپانزفارم انسیفلوپیتھی) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ بیماری سب سے پہلے گائے میں ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ دوسرے جانوروں مثلاً بھینس، بھیڑ وغیرہ میں پھیلتی ہے۔ یہ خطرناک بیماری ہے جو مویشی کے جسم کو دھیرے دھیرے کمزور کر دیتا ہے۔ زیادہ عمر کے مویشیوں کے اندرونی اعضا پر یہ تیزی سے اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ مرض مویشی کی ریڑھ کی ہڈی کو تباہ کر دیتا ہے۔ طبی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک نامعلوم مرض ہے جس کا علاج تلاش کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ میڈ کاؤ برازیل سے قبل برطانیہ میں قہر برپا کر چکا ہے۔ برازیل میں اس سال 160 مویشیوں میں اس مرض کی مشتبہ علامتیں دیکھی گئی ہیں۔ جانچ ٹیم کو فوراً سائٹ پر تجزیہ کے لیے بھجا گیا اور مشتبہ و متاثر جانوروں کے نمونوں کو کناڈا کی تجربہ گاہ میں ٹیسٹنگ کے لیے بھیجا گیا۔ ویسے میڈ کاؤ انفیکشن کا سب سے پہلا معاملہ کناڈا میں دیکھا گیا تھا۔ 2015 میں وہاں پانچ معاملے درج ہوئے تھے۔ لیکن 2020 میں یہاں دیکھتے ہی دیکھتے میڈ کاؤ کے 24 مریض دیکھے گئے۔ 2021 میں یہ کیس بڑھ کر 43 ہو گیے۔ یعنی سال در سال یہ معاملہ بڑھتا گیا۔ کناڈا کے بعد اب یہ انفیکشن برازیل پہنچ گیا ہے۔ ہندوستان میں بھی 2016 میں مویشیوں میں اس بیماری کی علامتیں دیکھی گئی تھیں، لیکن حالات خراب نہیں ہوئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined