دہلی میں فسادات کے بعد مرکزی حکومت نے انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا سمیت بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں کے خلاف سخت ریمارک کرنے والے جج کا تبادلہ روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ کالجیم نے اڈیشہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر کام کر رہے جسٹس ایس مرلی دھر کو مدراس ہائی کورٹ منتقل کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن حکومت نے اسے منظور نہیں کیا۔ جبکہ دیگر تین ججوں کے تبادلے کو گرین سگنل دے دیا ہے۔
Published: undefined
نیوز پورٹل اے بی پی پر شائع خبر کے مطابق 28 ستمبر کو کالجیم نے جسٹس پنکج متل کو راجستھان اور جسٹس ایس مرلی دھر کو مدراس ہائی کورٹ بھیجنے کی سفارش کی تھی۔ یہ سفارش مرکزی حکومت کے محکمہ انصاف کو بھیجی گئی تھی جس کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے جسٹس متل کے تبادلے کو منظوری دے دی، جو پہلے جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کے علاوہ حکومت نے 28 ستمبر کو پی بی ورلے کو کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس علی محمد ماگرے کو جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کی منظوری دی تھی۔
Published: undefined
جسٹس ایس مرلی دھر کا ٹریک ریکارڈ غیر معمولی رہا ہے، وہ اپنے سخت لہجے اور فیصلے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ لائیو لاء کے اعداد و شمار کے مطابق جسٹس مرلی دھر کو 2006 میں دہلی ہائی کورٹ میں جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ تب وہ اس بنچ کا حصہ تھے جس نے پہلی بار 2009 میں ناز فاؤنڈیشن کیس میں ہم جنس پرستی کے حق میں تبصرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جسٹس مرلی دھر نے اس بنچ کی بھی صدارت کی جس نے ہاشم پورہ قتل عام کیس میں پی اے سی اہلکاروں اور سکھ مخالف فسادات کے معاملے میں کانگریس لیڈر سجن کمار کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔
Published: undefined
جسٹس ایس مرلی دھر کا نام اس وقت کھل کر سامنے آیا جب سال 2020 میں دہلی میں فسادات ہوئے تھے۔ ان فسادات کے بعد جسٹس مرلی دھر نے بی جے پی لیڈران انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا، پرویش ورما سمیت تمام لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی تھی۔ ان تمام بی جے پی رہنماؤں پر فسادات سے عین قبل اشتعال انگیز تقریریں کرنے کا الزام تھا۔ واضح رہے کہ فروری 2020 میں شہریت قانون کے خلاف جاری مظاہروں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ دو دن تک جاری رہنے والے ان فسادات میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز