سزائے موت کے لیے ہندوستان میں پھانسی دیئے جانے کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی بار ماہرین کے ذریعہ پھانسی کے دوسرے متبادل پر غور کیے جانے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے، لیکن ہنوز پھانسی دیئے جانے کا عمل ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اب موت کی سزا کے لیے پھانسی کی جگہ دوسرے طریقے اختیار کیے جانے کے مطالبہ پر سپریم کورٹ غور کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ کیا پھانسی کا عمل تکلیف دہ ہے؟ اور کیا جدید سائنسی طریقے دستیاب ہیں جو اس سے بہتر ہو سکتے ہیں؟
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ نے اٹارنی جنرل سے 2 مئی تک جواب دینے کے لیے کہا ہے۔ عدلات نے اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ حکومت کا جواب آنے کے بعد اس مسئلہ پر آگے غور کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
دراصل رشی ملہوترا نامی وکیل نے پھانسی کی سزا کو ایک ظالمانہ اور غیر انسانی طریقہ بتاتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ پھانسی کا پورا عمل بہت طویل ہے۔ موت یقینی کرنے کے لیے پھانسی کے بعد بھی سزا پانے والے کو نصف گھنٹے تک لٹکائے رکھا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ عدالت میں جب جج موت کی سزا کا فیصلہ سناتے ہیں تو کہتے ہیں ’ٹو بی ہینگڈ ٹل ڈیتھ‘ یعنی جب تک موت نہ ہو جائے تب تک پھانسی پر لٹکایا جائے۔ رشی ملہوترا نے اسی عمل کو ظالمانہ اور غیر انسانی بتایا ہے۔
Published: undefined
عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے پھانسی کا استعمال بند کر دیا ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔ عرضی دہندہ نے موت کے لیے انجکشن دینے، گولی مارنے یا الیکٹرک چیئر کا استعمال کرنے جیسے طریقے اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ رشی ملہوترا نے آج چیف جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی صدارت والی بنچ میں دلیل رکھتے ہوئے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ 1983 میں دینا بنام حکومت ہند معاملے میں سپریم کورٹ نے پھانسی کو درست طریقہ بتایا تھا۔ لیکن اب اس بات کو کافی وقت گزر چکا ہے۔ 1996 میں سپریم کورٹ نے ہی گیان کور بنام پنجاب معاملے میں امن اور عزت سے مرنے کو بھی زندگی کے حقوق کا حصہ مانا تھا۔ پھانسی کی سزا میں اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ رشی ملہوترا نے بتایا کہ لاء کمیشن بھی اپنی رپورٹ میں سی آر پی سی (کریمنل پینل کوڈ) کی دفعہ 354(5) (اسی دفعہ میں مرنے تک پھانسی پر لٹکائے رکھنے کی سزا کا التزام ہے) میں ترمیم کی سفارش کر چکا ہے، لیکن حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔
Published: undefined
بہرحال، 2017 میں داخل اس عرضی پر مرکزی حکومت نے 2018 میں جواب دیا تھا جس میں مرکز نے موت کی سزا کے لیے پھانسی کو سب سے بہتر طریقہ قرار دیا تھا۔ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ ’پھانسی‘ موت کے دوسرے طریقوں سے زیادہ بھروسہ مند اور کم تکلیف دہ ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ زہر سے انجکشن میں کئی بار موت میں تاخیر ہوتی ہے، جبکہ گولی مار کر جان لینا بھی ایک ظالمانہ طریقہ ہے۔ تینوں افواج میں اس طریقے کی اجازت ہے، لیکن وہاں بھی بیشتر پھانسی کے ذریعہ ہی موت کی سزا دی جاتی ہے۔
Published: undefined
آج 2 ججوں کی بنچ نے تفصیل سے عرضی دہندہ کی باتیں سنیں۔ اس دوران مرکز کی طرف سے پیش اٹارنی جنرل اور وینکٹ رمنی کا بھی رخ پرانے حلف نامے سے الگ نظر آیا۔ انھوں نے کہا کہ عرضی میں رکھی گئی باتوں پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ججوں نے اٹارنی جنرل سے اس بات پر جواب دینے کو کہا کہ کیا کسی پھانسی کے دوران اور اس کے بعد کے واقعہ پر افسر اور ڈاکٹر جو رپورٹ حکومت کو دیتے ہیں، اس میں کبھی یہ کہا گیا ہے کہ سزا پانے والے کو تکلیف ہوئی؟ کیا آج اس سے بہتر طریقے دستیاب ہیں؟ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ وہ اس پر آگے غور کرنے کے لیے نیشنل لاء یونیورسٹی کے پروفیسرز اور ماہرین ڈاکٹرز کی ایک کمیٹی تشکیل کر سکتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز